وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا
اور یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ (یعنی اسے خرچ کرنے کا ارادہ بھی نہ کرنا) مگر ہاں ایسے طریقہ پر جو بہتر ہو۔ یہاں تک کہ یتیم جوان ہوجائیں (اور تم ان کی امانت ان کے حوالہ کردو) اور (دیکھو) اپنا عہد پورا کیا کرو، عہد کے بارے میں تم سے باز پرس کی جائے گی۔
کسی کی جان کو ناجائز طریقے سے ضائع کرنے کی ممانعت کے بعد یتیم کے مال کو ضائع کرنے سے روکا جارہا ہے۔ اس لیے فرمایا، یتیم کے مال میں بدنیتی نہ کرو ہیر پھیر نہ کرو ۔ ان کے مال بالغ ہونے تک ایسے طریقے سے استعمال کرو جس میں اس کا فائدہ ہو جس کی پرورش میں یہ یتیم بچے ہوں اگر وہ خود مال دار ہے۔ تب تو اسے یتیموں کے مال سے بالکل الگ رہنا چاہیے اور اگر وہ فقیر و محتاج ہے تو معروف طریقے سے کھا سکتا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میں تو تجھے بہت کمزور دیکھ رہا ہوں اور تیرے لیے وہی پسند فرماتا ہوں جو خود اپنے لیے چاہتا ہوں خبردار! کبھی دو شخصوں کا والی نہ بننااو رنہ کبھی یتیم کے مال کا متولی بننا۔ (مسلم: ۱۸۲۶) ایفائے عہد: عہد سے مراد وہ میثاق جو اللہ اور بندے کے درمیان ہے جسے عہد الست کہتے ہیں اور وہ بھی جو انسان آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں، لین دین کے وعدے، ان کا سب کا پورا کرنا ضروری ہے۔ قیامت کے دن ان سب کے بارے میں جواب دہی ہوگی۔