وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
اور تمہارے پروردگار نے یہ بات ٹھہرا دی کہ اس کے سوا اور کسی کی بندگی نہ کرو اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہاری زندگی میں بڑھاپے کی عمر تک پہنچ جائیں (اور ان کی خدمت کا بوجھ تم پر آپڑے) تو ان کی کسی بات پر اف نہ کرو (یعنی کوئی بات کتنی ہی ناگوار گزرے مگر حرف شکایت زبان پر نہ لاؤ اور نہ (تیزی میں آکر) جھڑکنے لگو، ان سے بات چیت ادب و عزت کے ساتھ کرو۔
اٹل فیصلے، محکم حکم: وَقَضٰی: یہاں قضی کے معنی حکم فرمانے کے ہیں۔ تاکیدی حکم الٰہی جو کبھی ٹلنے والا نہیں، کہ عبادت اللہ ہی کی ہو اور والدین کی اطاعت میں سرمو فرق نہ آئے یہ دونوں حکم ایک ساتھ قرآن کریم میں اور بھی متعدد آیات میں ہیں جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَ لِوَالِدَيْكَ﴾ (لقمان: ۱۴) ’’میرا شکر کرو اور والدین کا بھی احسان مند رہ۔‘‘ خصوصاً ان کے بڑھاپے کے زمانے میں ان کا پورا ادب کرنا، کوئی بری بات زبان سے نہ نکالنا یہاں تک کہ ان کے سامنے اُف بھی نہ کرنا، نہ کوئی ایسا کام کرنا جو انھیں بُرا معلوم ہو، اپنا ہاتھ ان کی طرف بے ادبی سے نہ بڑھانا بلکہ ادب، عزت و احترام کے ساتھ ان سے بات کرنا، نرمی اور تہذیب سے گفتگو کرنا ان کی رضا مندی کے کام کرنا، دکھ نہ دینا، ستانا نہیں، ان کے سامنے تواضع، عاجزی اور خاکساری سے رہنا، ان کے لیے ان کے برھاپے میں، ان کے انتقال کے بعد دعائیں کرتے رہنا خصوصاً یہ دعا کہ الٰہی ان پر رحم کر جیسے رحم سے انھوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی ہے ایمانداروں کو کافروں کے لیے دعا کرنا منع ہو گئی ہے۔ گو وہ باپ ہی کیوں نہ ہو۔(تفسیر طبری)