سورة الإسراء - آیت 16

وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ہمیں منظور ہوتا ہے کہ کسی بستی کو ہلاک کردیں تو ایسا ہوتا ہے کہ اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں (یعنی وحی کے ذریعہ سے احکام حق پہنچا دیتے ہیں) پھر وہ بجائے اس کے کہ اس کی تعمیل کریں، نافرمانی میں سرگرم ہوجاتے ہیں، پس ان پر عذاب کی بات ثابت ہوجاتی ہے اور (پاداش عمل میں) انہیں برباد و ہلاک کر ڈالتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کی نافرمانی میں پہلے خوشحال لوگ مبتلا ہوتے ہیں: اس میں وہ اصول بتلایا گیا ہے جس کی رو سے قوموں کی ہلاکت کا فیصلہ کیاجاتا ہے کہ خوشحال لوگ عیاشیوں اور ظلم و زیادتی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان میں بے حیائی، فحاشی، زنا، کمزوروں کے حقوق غصب کرنا اللہ کی نافرمانی، نعمتوں کی ناقدر شناسی، دنیا میں غیر ضروری انہماک وغیرہ وغیرہ امراض پیدا ہو جاتی ہیں۔ انھی کی تقلید پھر دوسرے لوگ کرتے ہیں اس طرح سارا معاشرہ فسق و فجور میں آجاتا ہے اور عذاب الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِيْهَا﴾ (الانعام: ۱۲۳) ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے مجرم رکھے ہیں۔