الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
حج (کی تیاری) کے مہینے عام طور پر معلوم ہیں۔ پس جس کسی نے ان مہینوں میں حج کرنا اپنے اوپرلازم کرلیا تو (وہ حج کی حالت میں ہوگیا اور) حج کی حالت میں نہ تو عورتوں کی طرف رغبت کرنا ہے، نہ گناہ کی کوئی بات کرنی ہے، اور نہ لڑائی جھگڑا۔ اور (یاد رکھو) تم نیک عملی کی باتوں میں سے جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں رہتا، پس (حج کرو تو اس کے) سروسامان کی تیاری بھی کرو۔ اور سب سے بہتر سروسامان (دل کا سروسامان ہے اور وہ) تقوی ہے اور اے ارباب دانش (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو (کہ خوف الٰہی سے پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے)
حج کے مہینے مقرر ہیں اور یہ شوال، ذوالقعد اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ مطلب یہ کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا ہے اس لیے اس کا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ جائز نہیں۔ (ابن کثیر) فمن فرض فیہن الحج سے مراد: اللہ کی طرف سے حج فرض ہے اور اس میں تین پابندیاں ہیں۔ رفث، فسوق اور جدال سے بچنا۔ رفث: مرد اور عورت کے شہوانی تعلقات اور اسی طرح کی حرکات احرام میں منع ہیں۔ فسوق: احرام کی حالت میں شکار کرنا منع ہے ناخن اور بال نہیں کٹوائے جاسکتے۔ جدال: آپس میں جھگڑنا اور ایک دوسرے کو غصہ دلانا اور لڑائی جھگڑا کرنا منع ہے۔ حج مبرور: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہے۔ (بخاری: ۱۷۷۳) اور فرمایا کہ جس نے اللہ کے لیے حج کیا پھر اس دوران نہ بے حیائی کی کوئی بات کی اور نہ گناہ کا کوئی کام کیا وہ ایسے واپس ہوتا ہے جیسے اس دن تھا جب وہ پیدا ہوا۔ اللہ کا خوف گھر سے ہی لے کر جائیں گے تو ان چیزوں سے بچ سکیں گے۔ ان پابندیوں کے ساتھ حج ادا کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ زادِ راہ لے لیا کرو: سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یمن کے لوگ حج کے لیے آتے لیکن زاد راہ ساتھ نہ لاتے اور کہتے کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ پھر مکہ پہنچ کر لوگوں سے مانگنا شروع کردیتے اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری: ۱۵۲۳) ضرورت کے وقت اگرچہ مانگنا ناجائز نہیں مگر اسلام میں سوال کرنے کو اچھا نہیں سمجھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری: ۱۴۲۷) بلا ضرورت مانگنا اور پیشہ ور کے طور پر مانگنا تو بد ترین جرم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مانگنے کو عادت بنالے وہ قیامت کو اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا تک نہ رہے گا۔ (بخاری: ۱۴۷۴) بہتر تو شہ اللہ کا ڈر ہے۔ مال و اسباب سے زیادہ تقویٰ کا زادراہ زیادہ ضروری ہے اس کے لیے علم چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کتنا عظیم اور خیال رکھنے والا ہے۔ نماز تقویٰ دیتی ہے روزہ۔ زکوٰۃ سے تقویٰ ملتا ہے حج تقویٰ دیتا ہے مناسک حج میں یہ کوشش ہوتی ہے کہ اللہ راضی ہوجائے۔ پیدل حج کی وجہ سے شعور حاضر رہتا ہے۔ انسان جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے اتنا ہی اس کا تقویٰ پختہ ہوتا ہے۔ مزدلفہ کی رات بہت زیادہ تقویٰ دیتی ہے کائنات پر غوروفکر سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ حج: حج کا شوق پیدا ہو۔ ارادہ پختہ ہو تو تمام رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں۔ شعور، علم، فہم جاگتا ہے اللہ کے گھر کا شوق اس کی زیارت كا ولولہ ہو، دل سے رشتوں کی اہمیت کم ہوکر تعلق اللہ سے جڑتا ہے۔ حج کی تیاری سے آخرت کی تیاری کا تصور ملتا ہے۔ احرام کی خریداری جیسے کفن کی خریداری۔ شہر سے نکلنا جیسے روح کا جسم سے نکلنا راستے کی منازل کو دیکھ کر یاد رکھیں کہ موت سے حشر تک کے میدان کا سفر کرنا ہے۔ مکہ میں داخل ہوکر یہ سوچیں کہ اللہ مجھے امن والی جگہ پر لے آیا تو آخرت میں دارالسلام میں بھی لے جائے گا ۔ بیت اللہ میں اللہ کے حصار میں آجاتا ہے طواف اللہ کے نام سے، ملتزم کو چمٹنا غلطیوں اور گناہوں کا احساس ہوتا ہے معافی مانگنا سعی کرنا، سوچئے کہ اللہ کا میزان بھی ایسا ہی ہوگا وقوف، عرفات، نمازیں، خطبہ حج تصور میں حشر کا میدان سمجھ کر گڑ گڑا کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔