سورة النحل - آیت 126

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور مخالفوں کی سختی کے جواب میں سختی کرو تو چاہیے کہ ویسی ہی اور اتنی ہی کرو جیسی تمہارے ساتھ کی گئی ہے، اور اگر تم نے صبر کیا (یعنی جھیل گئے اور سختی کا جواب سختی سے نہیں دیا) تو بلاشبہ صبر کرنے والوں کے لیے صبر ہی بہتر ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

بدلہ لینے میں انصاف کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اس آیت کے بابت ایک حدیث میں مروی ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُحد کے دن انصار کے چونسٹھ اور مہاجرین کے چھ آدمی شہید ہوگئے ان میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جن کا کفار نے مثلہ کیا۔ چنانچہ انصار نے کہا اگر کبھی ہمیں ان پر فتح ہوئی تو ہم بھی ان سے یہی سلوک کریں گے پھر جب مکہ فتح ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ سے لِّلصّٰبِرِيْن تک) کسی نے کہا آج کے بعد قریش نہ رہیں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چار شخصوں کے علاوہ باقی سب سے ہاتھ روک لو۔‘‘ (ترمذی: ۳۱۲۹) حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں سورہ نحل پوری مکہ شریف میں اتری مگر اس کی یہ آخری تین آیات مدینہ شریف میں اتریں۔ اُحد کے میدان میں مسلمانوں کی لاشوں کا مثلہ کیا گیا جس پر انصار نے بدلہ لینے کا عہد کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر فرمایا اگر تمھیں دعوت و تبلیغ کی راہ میں تکلیفیں اور سختیاں پہنچائی گئی ہیں پھر تمھیں کسی وقت ان پر قدرت حاصل ہو تو تمھیں ان سے بدلہ لینے کی اجازت ہے مگر اس بدلہ میں زیادتی ہرگز نہ ہونی چاہیے اور اگر تم برداشت کرکے درگزر کر دو تو یہ بات زیادہ بہتر ہے۔ اس آیت کا حکم عام ہے۔ جس کا اطلاق ہر ایسے موقع پر ہو سکتا ہے۔