وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور (دیکھو) حج اور عمرہ کی جب نیت کرلی جائے تو اسے اللہ کے لیے کرنا چاہیے اور اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ تم (اس نیت سے نکلے مگر) راہ میں گھر گئے (لڑائی کی وجہ سے یا کسی دوسری وجہ سے) تو پھر ایک جانور کی قربانی کرنی چاہیے۔ جیسا کچھ بھی میسر آجائے۔ اور اس وقت تک سر کے بال منہ منڈاؤ (جو اعمال حج سے فارغ ہو کر احرام اتارتے وقت کیا جاتا ہے) جب تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ جائے۔ ہاں اگر کوئی شخص بیمار ہو یا اسے سر کی کسی تکلیف کی وجہ سے مجبوری ہو تو چہایے کہ (بال اتارنے کا) فدیہ دے دے اور وہ یہ ہے کہ روزہ رکھے یا صدقہ دے یا جانور کی قربانی کرے۔ اور پھر جب ایسا ہو کہ تم امن کی حالت میں ہو اور کوئی شخص چاہے کہ (عمرہ حج سے ملا کر) تمتع کرے (یعنی ایک ہی سفر میں دونوں عملوں کے ثواب سے فائدہ اٹھائے) تو اس کے لیے بھی جانور کی قربانی ہے جیسی کچھ میسر آجائے۔ اور جس کسی کو قربانی میسر نہ آئے تو اسے چاہیے تین روزے حج کے دنوں میں رکھے سات روزے واپسی پر، یہ دس کی پوری گنتی ہوگئی۔ البتہ یاد رہے کہ یہ حکم (یعنی عمرہ کے تمتع کا حکم) اس کے لیے ہے جس کا گھر بار مکہ میں نہ ہو ( باہر حج کے لیے آیا ہو) اور دیکھو ہر حال میں اللہ کی نافرمانی سے بچو اور یقین کرو وہ (نافرمانوں کو) سزا دینے میں بہت ہی سخت ہے
حج کیا ہے؟ حج اور عمرہ تقویٰ پیدا كرتا ہے اسے اللہ کے لیے پورا کرو گھر بار چھوڑ کر اللہ کے لیے حج کے دنوں میں مناسک حج ادا کرنا ہے سال میں ایک بار اور عمرہ سال کے کسی بھی حصے میں ادا كیا جاسكتا ہے۔ ان اعمال کو انجام دینا ہے حج اور عمرہ صاحب ثروت و استطاعت زندگی میں ایك بار فرض ہے۔ جب كہ عمرہ بار بار کیا جاسکتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ گناہوں کا کفارہ ہے اور جبكہ حج مبرور (نیکیوں سے بھر ا حج) كا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ اگر تم روک لیے جا ؤ: مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے لیکن مشرکین نے ہمیں عمرہ سے روک دیا۔ (بخاری: ۴۱۷۸، ۴۱۷۹) بدیل بن ورقا الخزاعی آیا اور کہنے لگا کہ قریش آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم لڑنے نہیں آئے ہم تو عمرہ کرنے آئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو اور قربانی کرو اور اپنے سر منڈوادو۔ پھر آپ نے اپنی قربانی ذبح کی حجام کو بلوایا اور اس نے آپ کا سر مونڈا۔(بخاری: ۲۷۳۲) قربانی کرنا اور سر منڈوانا احرام سے نکلنے کا راستہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس کو قربانی نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں اور سات روزے گھر جاکر رکھے۔ ‘‘(بخاری: ۱۹۹۷، ۱۹۹۸) مناسک حج میں تقدیم و تاخیر: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع میں منیٰ میں ٹھہرے کہ لوگ آپ سے مسائل حج پوچھیں ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہا مجھے خیال نہ رہا اور میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوالیا آپ نے فرمایا: اب قربانی کرلو کچھ حرج نہیں۔ پھر ایک اور شخص آکر کہنے لگا کہ مجھے خیال نہ رہا اور میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرلی۔ آپ نے فرمایا اب کنکریاں مارلو کوئی حرج نہیں یعنی جو کام بھی آگے پیچھے ہوجائے آپ نے فرمایا اب کرلو کوئی حرج نہیں۔ (مسلم: ۱۳۰۶) حج تمتع کیا ہے؟ دور جاہلیت میں سمجھا جاتا تھاکہ حج کے لیے الگ اور عمرہ کے لیے الگ سفر کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قید ختم کردی اور باہر سے آنے والوں کے لیے یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں جمع کرلیں ۔ البتہ جو مکہ میں یا اس کے آس پاس میقاتوں کی حدود کے اندر رہتے ہوں انھیں اس رعایت سے مستثنیٰ کردیا۔ حج کی اقسام:… حج كی دو قسمیں ہیں: (۱)احرام باندھ کر عمرہ کرے پھر احرام نہ کھولے نہ سر منڈوائے یہاں تک کے حج کے ارکان بھی پورے کرلے۔ (۲) اگر عمرہ کرکے سر منڈوالے اور احرام کھول دے پھر حج کے لیے نیا احرام باندھے تو اسے حج تمتع کہتے ہیں ایسے حج کو قرآن کہتے ہیں اور آپ نے اسی حج کو پسند فرمایا ہے۔