سورة البقرة - آیت 194

الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اگر حرم کے مہینوں کے رعایت کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی رعایت ہونی چاہیے۔ اگر نہ کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی نہیں ہے۔ (مہینوں کی) حرمت کے معاملہ میں (جب کہ لڑائی ہو) ادلہ کا بدلہ ہے (یعنی جیسی روش ایک فریق جنگ کی ہوگی، ویسی ہی دوسرے فریق کو بھی اختیار کرنی پڑے گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک فریق تو مہینوں کی حرمت سے بے پروا ہو کر حملہ کردے اور دوسرا فریق حرمت کے خیال سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے) پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو چہایے کہ ججس طرح کا معاملہ اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے ویسا ہی معاملہ تم بھی اس کے ساتھ کرو، البتہ (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ بات نہ بھولو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (انے تمام کاموں میں) پرہیز گار ہیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

شان نزول : ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے وقت نازل ہوئی جب آپ کو عمرے سے روک دیا گیا تھا۔(تفسیر طبری: ۳/ ۵۷۵) ۶ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کو ساتھ لے کر عمرہ کے لیے گئے تھے لیکن کفار مکہ نے انھیں مکہ نہیں داخل ہونے دیا اور طے پایا کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے لیے عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آسکتے ہیں رجب عمرہ کرنے والوں کے لیے مختص اور حرمت والا مہینہ تھا۔ ذی قعد ذی الحجہ اور محرم حج کرنے والوں کے لیے قابل احترام تھے۔ جب دوسرے سال مسلمان حسب معاہدہ عمرہ کے لیے جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں مطلب یہ کہ اگر اس دفعہ بھی کفار مکہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں تو تم بھی اس مہینے کی حرمت كے باوجود کفار سے بھرپور مقابلہ کرو۔ حرمت کا بدلہ حرمت سے: مراد اگر وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو۔ اور اگر جنگ ہو تو جتنی زیادتی وہ تم پر کریں اتنی ہی تم کر سکتے ہو اس سے زیادہ نہیں اور اس معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو ۔ اور اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔