سورة النحل - آیت 102

قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) تم کہہ دو (یہ میرے جی کی بناوٹ نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے) یہ تو فی الحقیقت تمہارے پروردگار کی طرف سے روح القدس نے اتاری ہے اور اس لیے اتاری ہے کہ ایمان والوں کے دل جما دے، فرمانبردار بندوں کے لیے رہنمائی اور (نجات و سعادت کی) خوشخبری۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا گھڑا ہوا نہیں بلکہ اسے جبرائیل علیہ السلام جیسے پاکیزہ ہستی نے سچائی کے ساتھ رب کی طرف سے اتارا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۔ عَلٰى قَلْبِكَ﴾ (الشعراء: ۱۹۳۔ ۱۹۴) ’’اسے روح الامین نے تیرے دل پر اُتارا ہے۔‘‘ اس لیے ایمان والے کہتے ہیں کہ ناسخ و منسوخ دونوں رب کی طرف سے ہیں۔ علاوہ ازیں نسخ کی مصلحتیں جب ان کے سامنے آتی ہیں تو ان کے اندر مزید ثابت قدمی اور ایمان میں پختگی آتی ہے اور یہ قرآن مسلمانوں کے لیے ہدایت اور بشارت کا ذریعہ ہے۔ کیونکہ قرآن بھی بارش کی طرح ہے۔ جس سے بعض زمینیں خوب شاداب ہوتی ہیں اور بعض میں خس و خاشاک کے سوا کچھ نہیں اُگتا۔ مومن کا دل طاہر و شفاف ہے، جو قرآن کی برکت سے اور ایمان کے نور سے منور ہو جاتا ہے۔ اور کافر کا دل شور زدہ زمین کی طرح ہے۔ جو کفر و ضلالت کی تاریکیوں سے بھرا ہوا ہے جہاں قرآن کی ضیا پاشیاں بھی بےاثر رہتی ہیں۔