سورة النحل - آیت 61

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر ایسا ہوتا کہ اللہ لوگوں کو ان کے ظلم پر (فورا) پکڑتا تو ممکن نہ تھا کہ زمین کی سطح پر ایک حرکت کرنے والی ہستی بھی باقی رہتی لیکن وہ انہیں ایک خاص ٹھہرائے ہوئے وقت تک ڈھیل دے دیتا ہے۔ پھر جب وہ مقررہ وقت آ پنچا تو نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کا علم وکرم، لطف و رحم ہے کہ وہ بندوں کے گناہ دیکھتاہے اور پھر بھی انھیں مہلت دیتاہے۔ پھر بھی وہ اپنی نعمتیں سلب کرتاہے نہ فوری مواخذہ ہی کرتاہے حالانکہ اگر وہ ارتکاب معصیت کے ساتھ ہی مواخذہ کرنا شروع کردے تو آج روئے زمین پر کوئی چلتا پھرتانظر نہ آئے۔ جب برائی عام ہو جائے، کفر وشرک عام ہو جائے تو پھر عذاب عام میں نیک لوگ بھی ہلاک کردیے جاتے ہیں۔ تاہم آخرت میں وہ عنداللہ سرخرو رہیں گے۔ انسانوں کی خطاؤں میں جانوربھی ہلاک ہوجائیں، گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے حلم وکرم سے پردہ پوشی کررہاہے، درگزر فرما رہا ہے ۔ ایک خاص وقت تک مہلت دیے ہوئے ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سناکہ کوئی صاحب فرمارہے ہیں، ظالم اپنا ہی نقصان کرتاہے تو آپ نے فرمایا: نہیں نہیں بلکہ پرندے اپنے گھونسلوں میں اس کے ظلم کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ (ابن کثیر)