وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور (دیکھو) ایسا نہ کرو کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھاؤ اور نہ ایسا کرو کہ مال و دولت کو حاکموں کے دلوں تک پہنچنے کا (یعنی انہیں اپنی طرف مائل کرنے کا) ذریعہ بناؤ۔ تاکہ دوسروں کے مال کا کوئی حصہ ناحق حاصل کرلو۔ اور تم جانتے ہو کہ حقیقت حال کیا ہے
باطل طریقوں سے دوسروں کا مال ہضم کرنے کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً چوری، خیانت، دغا بازی، جوا سود اور تمام ناجائز قسم کی تجارتیں اور سودے بازیاں۔ مثلا حکمرانوں کو رشوت دے کر زمین اپنے نام کروالینا۔ کسی کا حق غضب کرنا۔ دوسرے کا مال ہضم کرنا سب حرام ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک انسان ہوں تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو ۔ ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ایک دوسرے کی نسبت اپنی دلیل اچھی طرح پیش کرتا ہو اور میں جو کچھ سنوں اُسی کے مطابق فیصلہ کردوں اور اگر میں کسی کو اُس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دینے کا فیصلہ کردوں تو اُسے چاہیے کہ وہ نہ لے۔ کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔ (بخاری: ۲۴۵۸) ایمان خوف اور اُمید کے بین بین ہے اس لیے تقویٰ اختیار کرناچاہیے۔