سورة البقرة - آیت 186

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) جب میرا کوئی بندہ میری نسبت تم سے دریافت کرے (کہ کیونکر مجھ تک پہنچ سکتا ہے؟ تو تم اسے بتلا دو کہ) میں تو اس کے پاس ہوں وہ جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا اور اسے قبول کرتا ہوں۔ پس (اگر وہ واقعی میری طلب رکھتے ہیں تو) چاہیے کہ میری پکار کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ حصول مقصد میں کامیاب ہوں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ نے واضح کردیا کہ رمضان میں دعا کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ اور جب تم مجھے پکارو تو میں قریب ہی ہوں۔ اللہ سے نہ مانگیں تو وہ غضب ناک ہوتا ہے۔اللہ فرماتا ہے کہ جب کوئی شخص مجھے پکارتا ہے تو نہ صرف یہ كہ میں اس کی پکار سنتا ہوں بلکہ اسے شرف قبولیت بھی بخشتا ہوں۔ اس سے ان لوگوں کے باطل خیالات کو رد کردیا جو کہتے ہیں کہ اللہ ہم گنہگاروں کی دعا کب سنتا اور قبول کرتا ہے۔ اللہ جیسے اپنے پیاروں کی سنتا ہے ویسے ہی گنہگاروں کی بھی سنتا ہے اور شرف قبولیت بھی بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ بندے میرا حکم بجا لائیں مجھی سے مانگیں دوسروں سے نہ مانگیں اور یہ یقین رکھیں کہ میں ان کی دعا ضرور قبول کر دوں گا اور یہی سمجھداری اور فائدے کی بات ہے۔ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد ہے ’’بندہ جب اللہ کے آگے ہاتھ پھیلا کر مانگتا ہے۔ تو اللہ اس کے ہاتھ لوٹاتے ہوئے شرماتا ہے۔‘‘(امالی المحامل: ۴۳۳) اور فرمایا: ’’دعا مانگو کہ دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے۔‘‘ اور فرمایا: ’’سجدہ کرتے ہوئے بندہ رب کے سب سے قریب ہوتا ہے اس لیے سجدے میں دعا کیا کرو۔‘‘ (مسلم: ۴۷۹) جب دعا کرو تو پورے یقین کے ساتھ کرو۔(بخاری: ۷۴۶۴) روزہ دار افطار کے وقت جو دعا کرتا ہے وہ قبول ہوتی ہے ۔ انسان اپنی کوشش سے سیدھے راستے پر نہیں آسکتا ۔ اللہ کو پکارنا چاہیے ہر ضرورت کے لیے دعا کرنی چاہیے روزہ کے ساتھ دعا مانگو۔ رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ سحر و افطار کے وقت دعا كرنے سے دن رات مانگنے كی عادت ہوجائے۔ دعا مانگنے والا ہدایت پاتا ہے۔