خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
اس نے انسان کو نطفہ (کے ایک قطرہ) سے پیدا کیا، پھر دیکھو وہ ایک جھگڑنے والا اور ابھرنے والا وجود ہوگیا۔
خصیم مبین سے مراد: انسان ایک ننھی، حقیر سی بوند سے پیداہوا پھر جب بحث و استدلال کے ڈھنگ سیکھ جاتاہے یا شعور آتاہے تو اپنے مدعا پر طرح طرح کے دلائل پیش کرتاہے ۔ حق کے مقابلے میں کٹ حجتیاں پیش کرنے لگ جاتاہے۔ حتی کہ اپنے خالق اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی جھگڑا کرنے سے باز نہیں آتا۔ اپنی اوقات کی طرف نہیں دیکھتاکہ وہ ایک حقیر سی بوند سے پیداکیاگیاہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر تھوک کر فرمایا کہ باری تعالیٰ فرماتاہے کہ اے انسان ! تو مجھے کیا عاجز کرسکتاہے ۔ میں نے تو تجھے اس تھوک جیسی چیز سے پیداکیاہے جب تو زندگی پاگیا، تنو مند ہوگیا، لباس، مکان مل گیا تو لگا سمیٹنے اور میری راہ سے روکنے ؟ اور جب دم گلے میں اٹکا تو تو کہنے لگاکہ اب میں صدقہ کرتاہوں راہ اللہ دیتاہوں، بس اب صدقے خیرات کا وقت نکل گیا۔ (مسند احمد: ۴/ ۲۱۰، ح: ۱۷۸۶۰، ابن ماجہ: ۲۷۰۷)