أَتَىٰ أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اللہ کا حکم آ پہنچا، پس اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ (اور انتظار کرو) (اے مخاطب) اس کی ذات پاک اور بلند ہے جو یہ لوگ شرک کی باتیں کر رہے ہیں۔
مشرکین مکہ اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چڑانے کے لیے کہا کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو جیساکہ تم کہتے ہو، ہم پر عذاب آکیوں نہیں گیا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ دس بارہ سال گزر چکے پیغمبر اسلام کو عذاب کاوعدہ دیتے ہوئے اور عذاب آیا نہیں۔ اس بات سے وہ دو باتوں پر استدلال کرتے تھے کہ ایک اپنے مشرکانہ مذہب کی سچائی پر دوسرے پیغمبر اسلام کی نبوت کی تکذیب پر ۔ انھیں باتوں کے جواب سے اس سورت کا آغاز ہو رہاہے۔ پہلی بات کا جواب یہ دیا گیا کہ عذاب کا آنایقینی ہے اس لیے جلدی مچانے کی ضرورت نہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ عذاب کون سا تھا او رکب آیا۔ تو اس کے متعلق یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نبی کی ذات جب تک کسی قوم میں موجود ہواس وقت تک عذاب نہیں آتا۔ آگے پھر دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ نبی اور اس کے ساتھیوں کو ہجرت کاحکم دے کر وہاں سے نکال لیا جاتاہے یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے انھیں بچالیاجاتاہے۔ اور باقی مجرموں پر قہر ا لٰہی نازل ہوتاہے۔ لہٰذا اس عذاب کانقطۂ آغاز ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھا۔ یہی ہجرت مشرکین مکہ کے ظلم وستم کے خاتمہ کا سبب بنی اور مسلمانوں کوآزادی سے سانس لینا نصیب ہوا۔ یہی ہجرت غزوہ بدر کاپیش خیمہ بنی جس سے کفر کی خوب پٹائی ہوئی اور اس ہجرت کے آٹھ دس سال بعد کافروں اور مشرکوں کاقلع قمع ہوا اور شرک کا یوں استیصال ہواکہ سارے عرب سے اس کانام و نشان تک مٹ گیا۔ اور یہ ان کے دوسرے استدلال کاجواب ہے کہ اگر ہمارا مشرکانہ مذہب سچا نہ ہوتاتو اب تک ہم پر عذاب آچکاہوتا۔ عذاب آجانے پر اس استدلال کی از خود تردید ہو گئی۔