سورة الحجر - آیت 97

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہم اس سے بے خبر نہیں کہ ان لوگوں کی باتوں سے تمہارا دل رکنے لگتا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مشکل اوقات میں نماز کی تلقین: ہمیں خوب معلوم ہے کہ مشرکوں کی استہزا سے ایمان نہ لانے سے یا ان کی ایذاؤں سے آپ کے دل میں تنگی اور گھٹن ہوتی ہے۔ لیکن تم ان کا خیال نہ کرو۔ اللہ تمہارا مدد گارہے۔ اس کابہترین حل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف رجوع کیجیے ۔ اس کی تسبیح وتقدیس بیان کیجیے، نماز ادا کیجیے،ان چیزوں سے آپ کے دل میں گھٹن کی بجائے اطمینان پیداہوگا ۔ تمہارا حوصلہ بڑھائیں گی۔ استقامت پیداہوگی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ کامعاملہ آپڑتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کردیتے (ابو داؤد: ۱۳۱۹)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے:اے ابن آدم ! شروع دن کی چار رکعت سے عاجز نہ ہو میں تجھے آخر دن تک کفالت کروں گا۔ (احمد: ۵/ ۲۸۶، ابو داؤد: ۱۲۸۹) یقینی بات آجانے سے مراد: اس آخری آیت میں موت مراد ہے۔ اس کی دلیل میں سورۃ مدثر کی وہ آیتیں ہیں جن میں بیان ہے کہ جہنمی اپنی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم نماز ی نہ تھے، مسکینوں کو کھانا نہ کھلاتے تھے، باتیں بنایا کرتے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے۔ یہاں تک کہ موت آگئی ۔ یہاں بھی موت کی جگہ لفظ یقین ہے ۔ پس ثابت ہواکہ یہاں یقین سے مراد موت ہے۔