سورة البقرة - آیت 11

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں خرابی نہ پھیلاؤ (اور بدعملیوں سے باز آجاؤ) تو کہتے ہیں (ہمارے کام خرابی کا باعث کیسے ہوسکتے ہیں) ہم تو سنوارنے والے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ان کا فساد یہ تھا کہ ان کی دلی ہمدردیاں تو کافروں کے ساتھ تھیں اور بظاہر مسلمانوں میں رہ کر ان کے حالات سے کافروں کو باخبر رکھتے تھے اور ان کے لیے جاسوسی کے فرائض انجام دیتے تھے اور کمزورایمان والے مسلمانوں کو جو تازہ تازہ ایمان لائے تھے، انھیں حیلوں بہانوں سے اسلام کے خلاف اکساتے تھے اور جب کبھی جنگ ہوتی تو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں یعنی ہم ہر ایک سے صلح رکھنا چاہتے ہیں اور نئے دین اسلام کی وجہ سے آپس میں جو مخالفت بڑھ رہی ہے وہ ختم ہوجائے۔