يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
مسلمانو ! جو لوگ قتل کردیے جائیں ان کے لیے تمہیں قصاص (یعنی بدلہ لینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ (لیکن بدلہ لینے میں انسان دوسرے انسان کے برابر ہے) اگر آزاد آدمی نے آزاد آدمی کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلے وہی قتل کیا جائے گا (یہ نہیں ہوسکتا کہ مقتول کی بڑائی یا نسل کے شرف کی وجہ سے دو آدمی قتل کیے جائیں جیسا کہ عرب جاہلیت میں دستور تھا) اگر غلام قاتل ہے تو غلام ہی قتل کیا جائے گا ( یہ نہیں ہوسکتا کہ مقتول کے آزاد ہونے کی وجہ سے دو غلام قتل کیے جائیں) عورت نے قتل کیا ہے تو عورت ہی قتل کی جائے گی۔ اور پھر اگر ایسا ہو کہ کسی قاتل کو مقتول کے وارث سے کہ (رشتہ انسانی میں) اس کا بھائی ہے معافی مل جائے (اور قتل کی جگہ خوں بہا لینے پر راضی ہوجائے) تو (خوں بہا لے کر چھوڑ دیا جاسکتا ہے) اور ( اس صورت میں) مقتول کے وارث کے لیے دستور کے مطابق (خوں بہاکا) مطالبہ ہے اور قاتل کے لیے خوش معاملگی کے ساتھ ادا کردینا۔ اور دیکھو یہ ( جو قصاص کے معاملہ کو تمام زیادتیوں سے پاک کرکے عدل و مساوات کی اصل پر قائم کردیا گیا ہے تو یہ) تو تمہارے پروردگار کی طجرف سے تمہارے لیے سختیوں کا کم دکردینا اور رحمت کا فیضان ہوا۔ اب اس کے بعد جو کوئی زیادتی کرے گا تو یقین کرو وہ (اللہ کے حضور) عذاب دردناک کا سزاوار ہوگا
زمانۂ جاہلیت میں کوئی نظم و قانون نہ تھا۔ اس لیے زور آور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے ظلم و جور کا ارتکاب کرلیتے۔ جس كی ایک شکل یہ تھی کہ اگر کسی طاقت ور قبیلے کا کوئی شخص قتل ہوجاتا تو وہ قاتل کو قتل کرنے کے بجائے کئی مردوں بلکہ بسا اوقات پورے قبیلے کو ہی تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرق و امتیاز کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ جو قاتل ہوگا (قصاص) بدلے میں اسی کو قتل کیا جائے گا ۔ قاتل آزاد ہے تو بدلے میں آزاد۔ غلام ہے تو بدلے میں غلام، عورت ہے تو بدلے میں عورت، تمام مسلمانوں کے خون برابر ہیں مرد ہو یا عورت۔ معافی سے مراد: فریقین آپس میں سمجھوتہ کرسکتے ہیں۔ مقتول کے ورثہ کو فیصلہ کا حق ہے كہ (۱) وہ خون بہالینا چاہے تو معروف طریقے سے۔ (۲) اور اگر رضائے الٰہی کے لیے بغیر دیت یعنی معاوضہ لیے بغیر معاف کرنا چاہیں تو كر سكتے ہیں۔ قصاص: قصاص میں لوگوں کے لیے عبرت ہے یعنی صرف جان کا بدلہ جان ہی نہیں بلکہ دانت کا بدلہ دانت اور زخموں کا بدلہ زخم ہے۔ تخفیف اور رحمت: اللہ تعالیٰ نے جہالت اور ناانصافی کے قانون کو ختم کرکے عدل قائم کیا ہے۔ قتل کی حوصلہ شکنی کی۔ انتقامی جذبے سے روکا ہے۔ جان کے بدلے جان لی جائے گی لیکن اگر معاف کردے تو آپس میں راضی نامہ ہوسکتا ہے۔ اللہ کے قانون کے مطابق معافی، قصاص اور دیت ۔ یہ اللہ کی طرف سے مہربانی رحمت اور تخفیف ہے۔ اہل تورات میں قصاص اور معافی تھی اور عیسائیوں میں دیت تھی۔ حدیث میں ہےكہ ((اَلْمُسْلِمُوْنَ تَتَکَافَأُدِمَائَہُمْ)) ’’یعنی مسلمانوں کے خون آپس میں یکساں ہیں‘‘ (ابوداؤد: ۲۷۵۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے‘‘۔ ( بخاری :۶۹۱۵)