سورة ابراھیم - آیت 15

وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

غرض پیغمبروں علیہم السلام نے فتح مندی طلب کی اور ہر سرکش ضدی (جس نے حق کا مقابلہ کیا تھا) نامراد ہوا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ایک طرف تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فتح ونصرت کی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف ظالم مشرکین اللہ سے مطالبہ کررہے ہوتے ہیں کہ اگر یہ رسول سچے ہیں تو وہ عذاب کیوں نہیں لے آئے جس کی ہمیں دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ﴾ (الانفال: ۳۲) ’’اے اللہ اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کردے۔ ‘‘ یا جس طرح جنگ بدر کے موقع پر بھی مشرکین نے اسی قسم کی آرزو کی تھی۔ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعامانگ رہے تھے دوسری جانب سرداران کفر بھی کہہ رہے تھے کہ الٰہی آج سچے کو غالب کر۔ یہی ہوابھی۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَكُمُ الْفَتْحُ وَ اِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾ (الانفال: ۱۹) تم فتح طلب کرتے تھے لو اب وہ آگئی ۔ اب بھی اگر باز آجاؤ تو تمہارے میں بہتر ہے۔