سورة الرعد - آیت 26

اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے (جس کی چاہتا ہے) نپی تلی کردیتا ہے، لوگ دنیا کی (چند روزہ) زندگی (اور اس کے عارضی فوائد) پر شادمانیاں کرتے ہیں۔ حالانکہ دنیا کی زندگی تو آخرت کی زندگی کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے، محض تھوڑا سا برت لینا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ جس کی روزی میں کشادگی دینا چاہے اور جس کی روزی تنگ کرنا چاہیے یہ کمی بیشی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق جس کو صرف وہی جانتا ہے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم دیتا ہے۔ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے اور کمی کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہے۔ کافروں کو دنیا پر ہی سہارا ہوگیا یہ آخرت سے غافل ہو گئے سمجھنے لگے کہ یہاں رزق کی فراوانی حقیقی اور بھلی چیز ہے۔ حالانکہ دراصل یہ مہلت ہے اور پتا نہیں یہ مہلت کب ختم ہو جائے اور اللہ کی پکڑ کے شکنجے میں آجائے۔ ایک روایت میں ہے: ’’دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلہ میں اس طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے، تو دیکھے کہ سمندر کے پانی مقابلے میں اس کی انگلی میں کتنا پانی آیا ہے؟‘‘ (مسلم: ۷۱۹۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے ہوا تو اُسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ کی قسم، اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ جتنا یہ مردہ اپنے مالکوں کے نزدیک اس وقت حقیر تھا جب انھوں نے اسے پھینکا۔‘‘ (مسلم: ۲۹۵۷)