سورة البقرة - آیت 165

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے بھی ہیں جو خدا کے سوا دوسری ہستیوں کو اس کا ہم پلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ انہیں اس طرح چاہنے لگتے ہیں جیسی چاہت اللہ کے لیے ہوقنی چاہیے۔ حالانکہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ان کے دلوں میں تو سب سے زیادہ محبت اللہ ہی کی ہوتی۔ جو بات ان ظالموں کو اس وقت سوجھے گی جب عذاب ان کے سامنے آجائے گا کاش ! اس وقت سوجھتی۔ اس دین یہ دیکھیں گے کہ قوت اور ہر طرح کی قوت صرف اللہ ہی کو ہے، اور (اگر اس کے قوانین حق سے سرتابی کی جائے تو) اس کا عذاب بڑا ہی سخت عذاب ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ واضح دلائل ہونے کے باوجود ایسے لوگ ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اس کا شریک بنا لیتے ہیں۔ اور ان سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جیسے اللہ سے کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہی ایسا نہ تھا بلکہ آج بھی شرک کے ایسے مظاہرے عام ہیں بلکہ اسلام کے نام لیواؤں کے اندر بھی یہ بیماری گھر کر گئی ہے انھوں نے نہ صرف پیروں ، فقیروں اور سجادہ نشینوں کو اپنا حاجت روا بنا رکھا ہے، بلکہ ان سے ان کی محبت اللہ سے بھی زیادہ ہے۔ انسان فطری طور پر سہارا ڈھونڈتا ہے : جو اس کی کمیوں کو پورا کر سکے۔ اس کے معاملات کو سلجھا سکے اپنے ہاتھوں سے بت بناکر سمجھتاہے کہ ان میں قدرت ہے ابتدا سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ جو خود مخلوق ہے وہ کیسے کسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ انسان نے ہمیشہ دھوکا کھایا ہے وہ زندہ مخلوق سے اُمید لگا لیتا ہے کہ یہ اللہ کے قریب ہیں اس لیے میری دعائیں اللہ تک پہنچائیں گے اسی دھوکے میں انسان رب سے دور ہوجاتا ہے؎ بتو ں سے تجھ کو امیدیں اور رب سے نا اُمیدی مجھ کو بتا تو سہی کہ کافری کیا ہے ایمان والے اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں: وہ کسی سے اُمیدیں نہیں رکھتے کسی کو بڑا نہیں سمجھتے۔ دنیا کی محبت اللہ کے آگے ہیچ ہے۔ مشرکین بھی جب کسی سخت مشکل میں پھنس جاتے ہیں تو انھیں اپنے معبود بھول جاتے ہیں اور پھر وہ بھی اللہ ہی کو پکارتے ہیں۔ اللہ کی محبت کس طرح ملتی ہے: (۱)کثرت سے نوافل پڑھنے سے (۲) رب کی خاطر سب کچھ لٹا دینے سے۔ اپنی پسند پر رب کی پسند کو ترجیح دے، اللہ کے کلام سے محبت ہو۔ دنیا کو صرف اتنا لینا کہ گزارہ ہوجائے اور آخرت کے لیے زاد راہ بن جائے جو چیزیں چھن جائیں۔ ان پر افسوس نہ کرے تو بہ و استغفار کرے جسم تھک جائے دل نہ تھکے۔ اللہ کے بندوں سے محبت اور اس کے دشمنوں سے دشمنی۔ جو ایمان لاتے ہیں: وہ اللہ کی محبت میں شدید ہوتے ہیں ان کے لیے اللہ نے اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اللہ سے دعائیں مانگنی چاہئیں۔ اللہ لمحہ لمحہ محبت میں اضافہ کرتا ہے جتنا اللہ کی نشانیوں پر غوروفکر کریں گے محبت میں اضافہ ہوگا۔ حضرت انس سے روایت ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین خصلتیں جس میں پیدا ہوئیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پالیا۔ (۱) اللہ اور اسکا رسول ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوجائے۔ (۲) صرف اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ (۳) کفر میں لوٹنے کو ایسا سمجھے کہ آگ میں جارہا ہے۔(بخاری: ۶۹۴۱)