سورة الرعد - آیت 11

لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

انسان کے آگے اور پیچھے ایک کے بعد ایک آنے والی (قوتیں) ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ اللہ کبھی اس حالت کو نہیں بدلتا کو کسی گروہ کو حاصل ہوتی ہے جب تک کہ وہ خود ہی اپنی صلاحیت نہ بدل ڈالے۔ اور (پھر) جب اللہ چاہتا ہے کسی گروہ کو (اس کی تغیر صلاحیت کی پاداش میں مصیبت پہنچے تو مصیبت پہنچ ہی کر رہتی ہے، وہ) کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس کا کارساز ہو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حفاظت کرنے والے فرشتے: اللہ کے فرشتے بطور نگہبان اور چوکیدار کے بندوں کے اردگرد مقرر ہیں جو انھیں آفتوں او رتکلیفوں سے بچاتے رہتے ہی۔ اعمال لکھنے والے فرشتوں کی اور جماعت ہے۔ جو باری باری پے در پے آتے جاتے رہتے ہیں۔ رات کے الگ، دن کے الگ جیسے کہ دو فرشتے انسان کے دائیں بائیں اعمال لکھنے پر مقرر ہیں داہنے والا نیکیاں لکھتا ہے۔ بائیں جانب والا بدیاں لکھتا ہے۔ اسی طرح دو فرشتے اس کے آگے پیچھے ہیں جو ا س کی حفاظت کرتے رہتے ہیں پس ہر انسان ہر وقت چار فرشتوں میں رہتا ہے۔ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ: تم میں فرشتے پے در پے آتے جاتے رہتے ہیں رات کے اور دن کے ان کی ملاقات صبح اورعصر کی نماز میں ہوتی ہے۔ رات گزارنے والے آسمان پر چڑھ جاتے ہیں اور باجود علم کے اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم گئے تھے تو انھیں نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ آئے۔‘‘ (بخاری: ۵۵۵) ۷۸قوم اپنے اوصاف بدل نہ لے: اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے اپنی نعمتیں ان سے سلب فرما لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق بننے کے لیے ضروری ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے گویا تبدیلی کا مطلب یہی ہے کہ قوم گناہوں کو چھوڑ کر اطاعت الٰہی کار استہ اختیار کرے۔ قوموں کے عروج و زوال کا قانون: قوموں کے عروج وزوال کے قانون کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب مجموعی حیثیت میں کوئی قوم اخلاقی انحطاط کی انتہائی پستیوں تک پہنچ کر گناہ کے ارتکاب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ تو اسی وقت سے اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اگر وہ اپنی اصلاح کر لے تو خیر ورنہ آہستہ آہستہ دنیا سے نیست و نابود کر دی جاتی ہے۔ پھر اسے زوال سے کوئی طاقت بچا نہیں سکتی اور نہ کچھ مدت کے لیے عذاب کو اس سے ٹال ہی سکتی ہے۔