وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور (دیکھو) وہی ہے جس نے زمین کی سطح پھیلا دی اس میں پہاڑ دیے نہریں جاری کردیں اور ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے دو دو قسموں کے اگا دیے، اس نے رات اور دن (کے بتدریج ظاہر ہونے) کا ایسا قاعدہ بنا دیا کہ دن کی روشنی کو رات کی تاریکی ڈھانپ لیا کرتی ہے۔ یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے کتنی ہی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔
اس سے پہلی آیت میں نظام کائنات کو یوم آخرت پر دلیل کے طور پر پیش کیا تھا۔ اب ارضی آیات (نشانیوں) سے یوم آخرت پر دلائل دیے جا رہے ہیں۔ یعنی اللہ نے زمین کو طول و عرض میں پھیلایا۔ اس کے مخصوص مقامات پر پہاڑ گاڑ دیے۔ پھر ان پہاڑوں سے دریا اور نہریں جاری کیں، پھر اس پانی سے ہر طرح کی نباتات پیدا فرمائیں اور ہر طرح کے پھلوں میں نر اور مادہ پیدا کر دیے۔ پھر پھلوں اور نباتات کے بار آور ہونے کے لیے دھوپ کی بھی ضرورت تھی او رٹھنڈک کی بھی۔ لہٰذا اللہ نے دن اور رات پیدا کیے ان تمام باتوں میں ایک خاص قسم کا نظم، اعتدال اور حکمت پائی جاتی ہے۔ جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا خالق ایک ہی مدبر ہستی ہوسکتی ہے۔ اگر پہاڑوں، پھلوں، نباتات کا دیوتا کوئی اور پانی اور بارش کا دیوتا کوئی اور ہوتا تو ان تمام اشیاء میں ایسی مناسبت اور ہم آہنگی ناممکن تھی۔