سورة یوسف - آیت 110

حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اور ان گزری ہوئی قوموں پر فورا عذاب نہیں آگیا تھا انہیں مہلت ملتی رہی) یہاں تک کہ جب اللہ کے رسول (ان کے ایمان لانے سے) مایوس ہوگئے اور لوگوں نے خیال کیا ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا تو (پھر اچانک) ہماری مدد ان کے پاس آپہنچی، پس ہم نے جسے بچانا چاہا بچا لیا اور (جو مجرم تھے تو) ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ مجرموں سے ہمارا عذاب ٹل جائے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کی مدد میں تاخیر سے مومنوں پر اثر: سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا مطلب پوچھا (پیغمبروں کے پاس ہماری مدد آگئی) تو انھوں نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو جن لوگوں نے مانا اور ان کی تصدیق کی۔ جب ایک مدت دراز تک ان پر مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہو گئی اور پیغمبر جھٹلانے والوں کے ایمان لانے سے نا اُمید ہو گئے اور یہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اب وہ بھی جھوٹا سمجھنے لگیں گے تو اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔(بخاری: ۴۶۹۵) اللہ کا قانون مہلت: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کی مدد رسولوں پر ہر وقت اترتی ہے۔ کفار کو جب عذاب سے ڈرایا گیا تو پہلے تو وہ ڈر گئے لیکن جب عذاب آنے میں زیادہ تاخیر ہوئی توخیال کیا کہ عذاب تو آتا نہیں ہے(جیسا کہ پیغمبر کی طرف سے دعویٰ ہو رہا ہے) اور نہ آتا نظر ہی آرہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں سے بھی یونہی جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے۔ مطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم پر عذاب میں جوتاخیر ہو رہی ہے اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلی قوموں میں بھی عذاب میں بڑی بڑی تاخیر روا رکھی گئی ہے۔ اور اللہ کی حکمت و مشیت کے مطابق انھیں خوب خوب مہلت دی گئی حتیٰ کہ رسول اپنی قوم سے مایوس ہو گئے اور لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ شاید انھیں عذاب کو یوں ہی جھوٹ موٹ کہہ دیا گیا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو مہلت دیتا ہے حتیٰ کہ اس بارے میں وہ اپنے پیغمبروں کی خواہش کے برعکس بھی زیادہ مہلت عطا کرتا ہے۔ جلدی نہیں کرتا یہاں تک کہ بعض دفعہ پیغمبر کے ماننے والے بھی عذاب سے مایوس ہو کر یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ان سے یونہی جھوٹ موٹ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ﴾ (البقرۃ: ۲۱۴) ’’کیا تم گمان کیے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے تھے۔ انھیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔‘‘