وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
اور (جب شہر میں داخل ہوئے تو) اس نے اپنے والدین کو تخت پر اونچا بٹھایا (باقی سب کے لیے نیچے نشستیں رکھیں) اور (دیکھو) اس وقت ایسا ہوا کہ سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑے (اور مصر کے دستور کے مطابق اس کے منصب حکومت کی تعظیم بجا لائے) اس وقت (اسے بچپنے کا خواب یاد آگیا اور بے اختیار) پکار اٹھا، اے باپ ! یہ ہے تعبیر اس خواب کی جو مدت ہوئی میں نے دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اسے سچا ثابت کردیا، یہ اسی کا احسان ہے کہ مجھے قید سے رہائی دے، تم سب کو صحرا سے نکال کر میرے پاس پہنچا دیا اور یہ سب کچھ اس واقعہ کے بعد ہوا کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں اختلاف ڈال دیا تھا، بلا شبہ میرا پروردگار ان باتوں کے لیے جو کرنی چاہیے بہتر تدبیر کرنے والا ہے، بلاشبہ وہی ہے کہ (سب کچھ) جاننے والا (اور اپنے سارے کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
سیدنا یوسف علیہ السلام کے خواب کے واقع ہونے کا وقت: دوسرے دن جب یوسف علیہ السلام شاہی دربار میں پہنچے تو آپ علیہ السلام نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ تخت شاہی پر بٹھا لیا۔ اور یہ یوسف کی سوتیلی والدہ ہی ہو سکتی ہیں کیونکہ ان دونوں چھوٹے حقیقی بھائیوں کی والدہ بنیامین کی پیدایش کے وقت ہی فوت ہو گئی تھی۔ جب برادران یوسف علیہ السلام اور والدین نے یوسف علیہ السلام کی یہ شان و شوکت دیکھی تو والدین نیچے اترے اور وہ دونوں اور گیارہ بھائی سب کے سب یوسف علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ یہ سجدہ، سجدہ تعظیمی ہے سجدہ عبادت نہیں اور اب سجدہ تعظیمی کو بھی حرام کر دیا گیا تھا۔ اور اب یہ سجدہ تعظیمی بھی کسی کے لیے جائز نہیں۔ خواب کی تعبیر: یعنی یوسف علیہ السلام نے جو خواب دیکھا تھا اتنی آزمایشوں سے گزرنے کے بعد بالآخر اس کی یہ تعبیر سامنے آئی کہ اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو تخت شاہی پر بیٹھایا او روالدین سمیت تمام بھائیوں نے انھیں سجدہ کیا۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ابا جی میرے خواب کا ظہور ہو گیا ہے۔ میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا۔ اور اس کا یہ بھی احسان ہے کہ اس نے مجھے قیدخانے سے نجات دی ۔ اور آپ سب کو صحرا سے لا کر یہاں مجھ سے ملا دیا۔ ورنہ شیطان نے تو ہم بھائیوں کے درمیان فتنہ کھڑا کر ہی دیا تھا۔ (اس وقت بھی سیدنا یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے نہ کوئی شکایت کی اور نہ ان پر کوئی الزام رکھا کہ وہ مزید شرمسار نہ ہوں) اللہ تعالیٰ نے غیر محسوس انداز میں میرے لیے ہر طرح کی بھلائی کی راہیں پیدا کر دیں۔ کسی کو کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ مجھے کنوئیں میں ڈالنے، پھر قید میں ڈالنے میں اللہ کی کیا کیا حکمتیں پنہاں تھیں۔