سورة یوسف - آیت 96

فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لیکن پھر جب (قافلہ کنعان پہنچ گیا اور) خوشخبری سنانے والا (دوڑتا ہوا) آیا تو اس نے (آتے ہی) یوسف کا کرتا یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا اور اس کی آنکھیں پھر سے روشن ہوگئیں، تب اس نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی جانب سے وہ بات جانتا ہوں جو تمہیں معلوم نہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کی واپسی: یہ خوشخبری دینے والا بڑا بیٹا یہودا ہی تھا جس نے یوسف علیہ السلام کو قتل کرنے سے بھائیوں کو روکا تھا۔ یہودا ہی مصر میں رہ گیا تھا کہ باپ کو جا کر کیا منہ دکھاؤں گا۔ یہودا ہی قافلہ سے پہلے قمیص لیے باپ کے پاس پہنچ گیا اور انھیں یوسف علیہ السلام اور بنیامین کے مل جانے کی خوش خبری سنائی۔ پھر قمیص آپ علیہ السلام کے چہرے پر ڈالی تو دفعتاً آپ کی بینائی لوٹ آئی۔پھر اسی نے بتایا کہ میرے باقی بھائی پہنچ رہے ہیں نیز یوسف علیہ السلام نے ہم سب گھر والوں کو اپنے پاس بلایا ہے۔ اور اب ہم اسی غرض سے یہاں آئے ہیں۔ اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نے سب گھر والوں سے کہا کہ اب تم حقیقت کو جان ہی گئے ہو گے جو کچھ میں کہتا تھا درست تھا۔ میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جان سکتے۔ ان باتوں کاماخذ علم وحی ہی ہو سکتا ہے جو صرف انبیا کو عطا ہوتا ہے یا وہ خواب بھی جسے آپ علیہ السلام اوریوسف علیہ السلام کے سوا کوئی نہ جانتا تھا۔