فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ
پھر جب (باپ کے حکم کی تعمیل میں یہ لوگ مصر پہنچے اور) یوسف کے پاس گئے تو (اپنے پھر آنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہا اے عزیز ہم پر اور ہمارے گھر کے آدمیوں پر بڑی سختی کے دن گزر رہے ہیں، پس (مجبور ہو کر غلہ کی طلب میں ہمیں پھر نکلنا پڑا) ہم تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں، اسے قبول کرلیجیے، اور غلہ کی پوری تول عنایت کیجیے اور (اسے خریدوفروخت کا معاملہ نہ سمجھیے بلکہ) ہمیں (محتاج سمجھ کر) خیرات دے دیجیے، اللہ خیرات کرنے والوں کو ان کا اجر دیتا ہے۔
برادران یوسف علیہ السلام کا تیسری مرتبہ مصر جانا ہوا: یوسف علیہ السلام کے متعلق تو انھیں کچھ معلوم نہ تھا لیکن ظن ضرور تھا کہ جس قافلہ نے اسے کنوئیں سے نکالا تھا وہ مصر جا رہا تھا لہٰذا یہ امکان تھا کہ شاید وہ مصر میں ہی ہو البتہ بنیامین کے متعلق یقین تھا کہ اسے شاہِ مصر نے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ تیسرا بھائی بھی ادھر ہی تھا۔ لہٰذا انھوں نے تیسری بار مصر کا رخ کیا ۔ اور جب بھائی یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے اور اپنے دکھ اور اپنے گھر والوں کی مصیبتیں بیان کیں اور التجا کی کہ ہم لوگوں پر سخت مشکل وقت آن پڑا ہے۔ کھانے کو غلہ نہیں اور غلہ کے لیے رقم نہیں۔ یہ تھوڑی سی پونجی ہم لائے ہیں اگر آپ غلہ پورا دے دیں تو آپ کی انتہائی مہربانی ہوگی۔ آپ علیہ السلام کے پہلے بھی ہم پر بہت احسان ہیں اب بھی ہم پر احسان فرمائیے۔ اور اللہ احسان کرنے والوں کو بہترین جزا دے گا۔ اور یقینا آپ علیہ السلام کو بھی اللہ ضرور ان شاء للہ جزا دے گا۔