سورة یوسف - آیت 67

وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور باپ نے انہیں (چلتے وقت) کہا، اے میرے بیٹو ! دیکھو (جب مصر پہنچو تو شہر کے) ایک ہی دروزے سے داخل نہ ہونا، جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا، میں تمہیں کسی ایسی بات سے نہیں بچا سکتا جو اللہ کے حکم سے ہونے والی ہو (لیکن اپنی طرف سے حتی المقدور احتیاط کی ساری تدبیریں کرنی چاہیں) فرماں روائی کسی کے لیے نہیں ہے مگر اللہ کے لیے (دنیا کے سارے حکمرانوں کی طاقت اس کے آگے ہیچ ہے) میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی ہے جس پر تمام بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جب بنیامین سمیت گیارہ بھائی مصر جانے لگے تو باپ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ ہدایت دی۔ کیونکہ ایک ہی باپ کے گیارہ بیٹے جو قدوقامت، شکل وصورت میں بھی ممتاز ہوں۔ جب جگہ اکٹھے کہیں سے گزریں تو عموماً لوگ تعجب یا حسد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہی چیز نظر لگنے کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ انھیں نظر بد سے بچانے کے لیے فرماتے ہیں کہ پیارے بچو تم شہر کے ایک ہی دروازے سے شہر میں نہ جانا۔ بلکہ مختلف دورازوں سے ایک ایک، دودو کرکے جانا۔ نظر کا لگ جانا حق ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نظر لگنا برحق ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کر تی توہ نظر کرتی ہے۔ (صحیح بخاری: ۵۷۴۰۔ مسلم: ۲۱۸۷) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر بد سے بچنے کے لیے دعائیہ کلمات بھی اپنی اُمت کو بتلائے ہیں مثلاً فرمایا کہ جب تمھیں کوئی چیز اچھی لگے تو بارک اللہ کہو (مؤطا امام مالک) اور جس کی نظر لگے، اس کو کہا جائے کہ غسل کرے اور اس کے غسل کا پانی اس شخص کے سر اور جسم پر ڈالا جائے جس کو نظر لگی ہو۔ (مؤطا امام مالک) اسی طرح مَا شَآءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھنا بھی قرآن سے ثابت ہے (دیکھیں سورۂ کہف ۳۹) اسی طرح قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ بطور دم پڑھنا چاہیے۔ (ابو داؤد: ۵۰۵۸) اس تدبیر کے اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی بتلایا کہ یہ تدابیر بھی اسی صورت کام آسکتی ہیں جب اللہ کو منظور ہو۔ ورنہ سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ حکم اللہ کا ہی چلتا ہے کون ہے جو اس کے ارادے کو بدل سکے؟ اس کی قضا کو ٹال سکے۔ میرا بھروسہ اسی پر ہے۔ ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہیے۔