سورة یوسف - آیت 66

قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَن يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

باپ نے کہا میں کبھی اسے تمہارے ساتھ بھیجنے والا نہیں جب تک کہ اللہ کے نام پر مجھ سے عہد نہ کرو۔ (تم عہد کرو کہ) بجز اس صورت کے کہ ہم خود گھیر لیے جائیں (اور بے بس ہوجائیں) ہم ضرور اسے تیرے پاس واپس لے آئیں گے، جب انہوں نے باپ کو (اس کے کہنے کے مطابق) اپنا پکا قول دے دیا تو اس نے کہا ہم نے جو قول و قرار کیا اس پر اللہ نگہبان ہو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعقوب علیہ السلام ان تمام باتوں کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جب تک تم حلفیہ اقرار نہ کرو گے کہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ مجھ تک واپس پہنچاہو گے میں اسے تمھارے ساتھ بھیجنے کا نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ خدانخواستہ تم سب ہی گھیر لیے جاؤ اور تمھیں اپنی جانوں کی حفاظت بھی مشکل ہو جائے۔ چنانچہ بیٹوں نے اللہ کو بیچ میں رکھ کر باپ کے ساتھ پختہ عہد و پیمان کیا۔ تو اس وقت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ جو کچھ ہم میں قول و قرار پایا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ گوا ہ ہے اور وہی اسے بخیر و عافیت سرانجام دینے والا ہے۔