قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
(اس پر) بادشاہ نے (ان عورتوں کو بلایا اور) کہا صاف صاف بتلا دو تمہیں کیا معاملہ پیش آیا تھا جب تم نے یوسف پر ڈورے ڈالے تھے کہ اسے اپنی طرف مائل کرلو؟ وہ بولیں حاشا للہ ! ہم نے اس میں برائی کی کوئی بات نہیں پائی (یہ سن کر) عزیز کی بیوی بھی (بے اختیار) بول اٹھی جو حقیقت تھی وہ اب ظاہر ہوگئی ہاں وہ میں ہی تھی جس نے یوسف پر ڈورے ڈالے کہ اپنا دل ہار بیٹھے، بلا شبہ وہ (اپنے بیان میں) بالکل سچا ہے۔
عورتوں کا اعتراف جرم: اب بادشاہ نے خود تحقیق کرنی شروع کی۔ ان عورتوں کو جنھیں عزیز کی بیوی نے اپنے گھر دعوت پر جمع کیا تھا اور خود اسے بھی دربار میں بلوایا۔ پھر ان تمام عورتوں سے پوچھا کہ ضیافت والے دن کیا گزری تھی؟ سب بیان کرو۔ انھوں نے جواب دیا حاشاللہ یوسف علیہ السلام پر کوئی الزام نہیں ان پر بے بنیاد تہمت لگائی گئی ہے۔ واللہ ہم خوب جانتی ہیں کہ یوسف علیہ السلام میں کوئی بدی نہیں اس وقت عزیز کی بیوی خود ہی بول اُٹھی کہ اب جب حق کھل گیا ہے میں اس کا اقرار کرتی ہوں کہ اصل مجرم میں ہی ہوں میں نے ہی اس پر ڈروے ڈالنے کی کوشش کی تھی اور یوسف علیہ السلام بالکل بے قصور اورسچا ہے۔