فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
تو (دیکھو) اس کے پروردگار نے اس کی دعا قبول کرلی اور اس سے عورتوں کی مکاریاں دفع کردیں، بلاشبہ وہی ہے (دعاؤں کا) سننے والا (سب کچھ) جاننے والا۔
اللہ تعالیٰ کریم وقار نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو بال بال بچا لیا۔ آپ کو عصمت و عفت عطا فرمائی اپنی حفاظت میں رکھا۔ باوجود بھرپور جوانی کے، باوجود بے انتہا حسن و خوبی کے، باوجود ہر طرح کے کمال کے جو آپ علیہ السلام میں تھا آپ علیہ السلام اپنی خواہش نفس کی تکمیل سے بچتے رہے۔ اس عورت کی طرف رخ بھی نہ کیا جو رئیس زادی ہے۔ رئیس کی بیوی ہے۔ ان کی مالکہ ہے۔بہت ہی خوبصورت ہے۔ جمال کے ساتھ مال بھی ہے ریاست بھی۔ وہ اپنی بات ماننے پر انعام و اکرام اور نہ ماننے پر جیل جانے اور سخت سزا کا حکم سنا رہی ہے۔ لیکن آپ کے دل میں خوف خدا کا سمندر موجزن تھا۔ آپ علیہ السلام اپنے اس دنیوی آرام اور عیش و لذت کو رب کے نام پر قربان کرتے ہیں اور قید وبند کو اس پر ترجیح دیتے ہیں تاکہ اللہ کے عذابوں سے بچ جائیں اور آخرت میں ثواب کے مستحق بن جائیں۔