وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ
اور حقیقت یہ ہے کہ عورت یوسف کے پیچھے پڑچکی تھی اور (حالت ایسی ہوگئی تھی کہ بے قابو ہوکر) یوسف بھی اس کی طرف متوجہ ہوجاتا اگر اس کے پروردگار کی دلیل اس کے سامنے نہ آگئی ہوتی۔ (تو دیکھو) اس طرح (ہم نے نفس انسانی کی اس سخت آزمائش میں بھی اسے دلیل حق کے ذریعہ سے ہوشیار رکھا) تاکہ برائی اور بے حیائی کی باتیں اس سے دور رکھیں۔ بلاشبہ وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھا جو برگزیدگی کے لیے چن لیے گئے۔
برہان کے معنی دلیل او رحجت کے ہیں۔ رب کی برہان سے مراد خدا کی سجھائی ہوئی وہ دلیل ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے نفس کو اس بات پر قائل کیا کہ اس عورت کی دعوت عیش قبول کرنا تجھے زیب نہیں دیتا۔ اور وہ دلیل یہ تھی کہ میرے رب نے مجھے منزلت و عزت بخشی اور میں ایسا برا کام کروں۔ ایسے ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہوا کرتی۔ اس طرح اللہ نے انھیں اس بدفعلی کے ارتکاب سے بچا لیا۔ یہیں سے عصمت انبیاء کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ بھی بشر ہی ہوتے ہیں اور بشری تقاضوں سے مجبور ہو کر گناہ کا ارتکاب ان سے بھی ہو سکتا ہے۔ مگر اللہ انھیں ایسے کاموں سے بچائے رکھتا ہے۔ اور ان سے کوئی چھوٹی موٹی لغزش ہو بھی جائے تو بذریعہ وحی ان کی اصلاح کر دی جاتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام چنے ہوئے بندے ہیں: ہم نے جس طرح اس وقت اسے دلیل دکھا کر برائی سے بچا لیا اسی طرح اس کے کاموں میں بھی ہم اس کی مدد کرتے رہے اور برائیوں او ربے حیائیوں سے محفوظ رکھتے رہے۔ وہ تھا بھی ہمارا مخلص برگزیدہ پسندیدہ بندہ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ علیہ السلام پر درود و سلام ہو۔