وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
اور یاد رکھو یہ ضرور ہونا ہے کہ ہم تمہارا امتحان لیں۔ خطرات کا خوف، بھوک کی تکلیف، مال وجان کا نقصان، پیداوار کی تباہی، وہ آزمائشیں ہیں جو تمہیں پیش آئیں گی۔ پھر جو لوگ صبر کرنے والے انہیں (فتح و کامرانی کی) بشارت دے دو
آیات نمبر 157,156,155: ان آیات میں اس بات كا بیان ہے كہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہر طرح سے آزمائے گا۔ یعنی مال کی کمی ،جانوں کا ضیا اور بھوک و پیاس سے کہ کون کون ان آزمائشوں میں حق پر رہتا ہے۔ اور کون دوسری طرف پلٹ جاتا ہے۔ جنگ احزاب سے پہلے ہر وقت مدینہ کی چھوٹی سی ریاست میں خوف کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش آج رات کوئی پہرہ دے تاکہ میں سو سکوں ۔یہ سن کر سیدنا ابی وقاص مسلح ہوکر آگئے اور کہا کہ میں پہرہ دیتا ہوں آپ سوجائیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح آرام فرمایا۔ آزمائش سے انسان کا درجہ بڑھ جاتا ہے۔ شخصیت نکھرتی ہے اللہ سے تعلق کا پتہ چلتا ہے عقیدہ پختہ ہوجاتا ہے مصیبت کے وقت سوائے اللہ کے کچھ نہیں ملتا کوئی دوسری چیز نہیں ملتی۔ انسان اللہ کے حصار میں آجاتا ہے۔