قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ
(تب سب ملکر باپ کے پاس آئیے) اور انہوں نے کہا، اے ہمارے باپ ! کیوں آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے؟ (اور ہمارے ساتھ کہیں جانے نہیں دیتے؟) حالانکہ ہم تو اس کے دل سے خیر خواہ ہیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کو تو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ یوسف علیہ السلام کے حق میں بھائیوں کے دل صاف نہیں ہیں اس لیے انھیں جھوٹ او رمکاری سے کام لینا پڑا۔ اپنے باپ سے عرض کیا کہ ہم اس کے بھائی ہیں اس کی خیر خواہی ہم سے زیادہ کون کر سکتا ہے؟ آپ اسے ہمارے ساتھ آنے جانے میں تامل کیوں کرتے ہیں ہم پر اعتماد کیجیے۔ ہم کوئی اس کے دشمن تو نہیں۔ بہتر ہے کل جب ہم اپنے ریوڑ چرانے کے لیے جنگل کی طر ف جائیں تو آپ اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیے۔ وہاں اس کا دل بہلا رہے گا۔ جنگل کے پھل وغیرہ کھائے گا۔ وہ کچھ ہم سے مانوس ہوگا ہم سے مانوس ہوں اور اس کی پوری طرح حفاظت بھی کریں گے۔