لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ
جو لوگ (حقیقت حال) پوچھنے والے ہیں (اگر وہ سمجھیں تو) ان کے لیے یوسف اور اس کے بھائیوں کے معاملہ میں (موعظت و عبرت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔
یعنی اس قصہ میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ (ا) پہلی عبرت کی بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھا گیا کہ بنی اسرائیل مصر میں کیسے جا پہنچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اس سوال کا جواب دے کر ثابت کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فی الواقع اللہ کے نبی ہیں۔ (۲) برادران یوسف نے اپنے بھائی کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ اس لیے کیا کہ کھٹکتے خار کو راستہ سے ہٹا کر اپنی راہ صاف کی جائے۔ کیونکہ آپ اپنے والد کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ اسی طرح کفار مکہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ (۳)جو تدابیر حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اختیار کی تھیں انھی تدابیر نے یوسف علیہ السلام کے عروج و سر بلندی کا ذریعہ بنا دیا اور یہی تدابیر کفار مکہ کی اور کفر کی موت کا سبب بن گئیں۔