سورة البقرة - آیت 153

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمانو ! صبر اور نماز (کی معنوی قوتوں) سے سہارا پکڑو۔ یقین کرو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

صبر كیا ہے: اپنے نفس کو روک رکھنا، ناخوشگوار حالات کو برداشت کرنا، حق کے راستے پر جمے رہنا۔ ناموافق حالات میں دین سے نہ ہٹنا، غیر اللہ سے فائدہ دیکھ کر بھی حق پر ڈٹے رہنا۔ لذتوں کی قربانی اور عا رضی فائدہ کے نقصان پر صبر کرنا۔ جو تکلیفیں احکام الٰہی کو بجالانے میں آئیں انھیں صبر سے برداشت کرنا، دل شکستگی سے بچنا، باطل کے آگے نہ جھکنا، کمزوری نہ دکھانا ،صبر سے انسان بہت سی مشکلات پر قابو پالیتا ہے۔ نماز: ان حالات میں نفس انسانی کو اطمینان بخشتی ہے ۔بندہ کا اللہ پر توکل بڑھتا ہے ۔ یہی توکل مشکلات میں ثابت قدم رہنے کا سہارا ثابت ہوتا ہے۔ صبر کرنے والوں کو اللہ کی طرف سے مدد کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی آئی تو آپ گھبراگئے اور کہا کہ مجھے کچھ اوڑھا دو مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کچھ وقت دیا تاکہ آپ سنبھل جائیں پھر آپ غوروفکر کرتے رہے اور طبیعت میں ٹھہراؤ آگیا۔(بخاری: ۳) سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں (۱) صبر اللہ کی نعمتوں کا اقرار ہے۔ (۲) مصیبتوں پر اللہ کے ہاں اجر ملنے کا یقین رکھے۔ (۳) اور ان پر ثواب طلب کرے۔ گھبراہٹ ۔ پریشانی اور کٹھن معاملات پر اور نقصانات پر صبر کرے۔