سورة یوسف - آیت 3

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) اس قرآن کی وحی کر کے ہم تجھے بہتر طریقہ پر (پچھلی) سرگزشتیں سناتے ہیں اور یقینا قرآن کے نازل ہونے سے پہلے تو انہی لوگوں میں سے تھا جو (ان سرگزشتوں سے) بے خبر تھے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قَصَصْ کے معنی ہیں کسی چیز کے پیچھے لگنا۔ قصہ محض کہانی یا طبع زاد افسانے کو نہیں کہا جاتا ہے بلکہ ماضی میں گزرنے والے واقعات کے بیان کو (یعنی اس کے پیچھے لگنے کو) قصہ کہا جاتا ہے۔ یہ گویا ماضی کی خبر کا واقعی اور حقیقی بیان ہے اور اس واقعہ میں حسدو عناد کا انجام، تائید الٰہی کی کرشمہ سازیاں نفس امارہ کی سرکشیوں کا نتیجہ اور دیگر انسانی عوارض و حوادث کا نہایت دلچسپ بیان اور بڑے عبرت انگیز پہلو ہیں اس لیے اسے قرآن میں احسن القصص (بہترین بیان) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آپ بے خبروں میں سے تھے: قرآن کریم کے ان الفاظ سے بھی واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے ورنہ اللہ تعالیٰ آپ کو بے خبر قرار نہ دیتا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے نبی ہیں کیونکہ آپ ہر وحی کے ذریعے سے ہی نہ سچا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ کسی کے شاگرد تھے، نہ کسی اُستاد سے سیکھ کر فرما دیتے۔ نہ کسی اور سے ہی ایسا تعلق تھا کہ جس سے تاریخ کا یہ اہم واقعہ سن کر اپنے جزئیات کے ساتھ آپ نشر کر دیتے یہ یقینا اللہ نے ہی وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل فرمایا ہے، جیسا کہ اس مقام پر بیان ہے۔