فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ
پھر (دیکھو) ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جو عہد تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان میں اہل خیر باقی رہے ہوتے اور لوگوں کو ملک میں شر و فساد کرنے سے روکتے؟ ایسا نہیں ہوا مگر بہت تھوڑے عہدوں میں جنہیں ہم نے نجات دی، طلم کرنے والے تو اسی راہ پر چلے جس میں انہوں نے (اپنی نفس پرستوں کی) آسودگی پائی تھی، اور (وہ سب احکام حق کے) مجرم تھے۔
عذاب کے متعلق اللہ کا قانون: جب کبھی کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے اور لوگوں کو ایمان لانے او ربھلے کاموں کی دعوت دیتا ہے تو معرکہ حق و باطل شروع ہو جاتا ہے جس نے نتیجے میں اللہ مجرموں کو ہلاک کر دیتا ہے اورا ہل ایمان کو بچا لیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سوال کرتا ہے کہ ان بچے ہوئے لوگوں میں سے ایسے نیک لوگ کیوں نہ ہوئے جو اہل شر اور اہل منکر کو منکرات سے روکتے؟ پھر فرمایا ایسے لوگ تھے تو سہی مگر بہت تھوڑے۔ پھر اگر یہ اہل خیر برائی کو روکنے کا فریضہ اپنی حسب توفیق سرانجام دیتے رہتے تو بھی نیک لوگوں کی موجودگی میں اللہ کی طرف سے عذاب نہیں آتا۔ لیکن جب اہل خیر نہی عن المنکر سے غفلت برتنے لگیں اور برائی عام ہو جائے اور خوشحال لوگ اپنی عیش کوشیوں میں ہی پڑے رہیں تو اسی صورت میں اللہ کا عذاب آتا ہے۔ جو اہل خیر کو بھی نہیں چھوڑتا اس طرح گیہوں کے ساتھ گُھن بھی پس جاتا ہے۔