وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور (دیکھو) تم کہیں سے بھی نکلو (اور کسی مقام میں بھی ہو) لیک چاہیے کہ (نماز میں اپنا رخ مسجد حرام ہی کی طرف پھیر لو اور (اے پیروان دعوت قرآنی) تم بھی اپنا رخ اسی طرف کو کرلیا کرو۔ خواہ کسی جگہ اور کسی سمت میں ہو۔ اور یہ (جو تقرر قبلہ پر اس قدر زور دیا گیا ہے تو یہ) اس لیے ہے تاکہ تمہارے خلاف لوگوں کے پاس کوئی دلیل باقی نہ رہے (اور یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ معبد ابراہیمی ہی تمہارا قبلہ ہے) البتہ جو لوگ حق سے گزر چکے ہیں (ان کی مخالفت ہر حال میں جاری رہے گی) تو ان سے نہ ڈرو۔ مجھ سے ڈرو۔ اور علاوہ بریں یہ (حکم) اس لیے بھی (دیا گیا) ہے کہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کردوں۔ نیز اس لیے کہ (سعی و عمل کی) سیدھی راہ پر تم لگ جاؤ
مجھ ہی سے ڈرو: یعنی مشرکوں کی باتوں کی پروا نہ کرو جووہ کہتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا قبلہ تو اختیار کرلیا ۔ عنقریب دین بھی اختیار کریں گے۔ مجھ سے ہی ڈرتے رہو: ’’میں جو حکم دیتا رہوں اس پر بلا خوف عمل کرتے رہو تحویل قبلہ کو اتمام نعمت اور ہدایت ملنے سے تعبیر فرمایا کہ حکم الٰہی پر عمل کرنا یقینا انسان کو انعام و اکرام کا مستحق بناتا ہے اور ہدایت کی توفیق بھی اُسے نصیب ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے استغفار كو لازم پكڑا ، اللہ تعالیٰ اس كے لیے ہر تنگی اور ہر پریشانی سے نكلنے كا راستہ بنا دے گا، اور اس كو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔ ‘‘ (ابوداؤد: ۱۵۲۰)