قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا ۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ
لوگوں نے کہا اے شعیب ! تم جو کچھ کہتے ہو اس میں سے اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم ہم لوگوں میں ایک کمزور آدمی ہو، (اگر (تمہارے ساتھ) تمہاری برادری کے آدمی نہ ہوتے تو ہم ضرور تمہیں سنگ سار کردیتے، تمہاری ہمارے سامنے کوئی ہستی نہیں۔
باتوں کو سمجھ نہیں آتی: یعنی یہ کہ تم کاروبار میں سچائی، راست بازی اور دیانتداری کی باتیں کرتے ہو اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارا تو سارا کاروبار ہی ٹھپ ہو جائے گا اگر ہم یہ کام نہ کریں گے تو کمائیں گے کیا اور کھائیں گے کیا؟ لہٰذا یہ نصیحتیں اپنے پاس ہی رکھو۔ تمھاری یہ باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ دراصل جب انسان حرام ذرائع سے مال کمانے کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کے لیے حلال ذریعہ سے مال کمان اتنا ہی دشوار نظر آتا ہے۔ جتنا کسی بلند پہاڑ پر چڑھنا۔ کمزور آدمی: آپ علیہ السلام اکیلے تھے۔ اس کے لیے آپ علیہ السلام کے کہنے والے بھی آپ علیہ السلام کے دین پر نہ تھے۔ اس لیے انھیں کہا گیا کہ اگر ہمیں تمھاری برادری کا خیال نہ ہوتا جو ہمارے ہی ہم خیال ہیں تو ہم تو پتھر مار مار کر تمھارا قصہ ہی تمام کر دیتے۔ تم ایک کمزور انسان ہو ہم میں آپ علیہ السلام کی کوئی قدر ومنزلت رفعت و عزت نہیں۔