قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ
لوگوں نے کہا اے شیعب ! کیا تیری یہ نمازیں (جو تو اپنے خدا کے لیے پڑھتا ہے) تجھے یہ حکم دیتی ہیں کہ ہمیں آکر کہے : ان معبودوں کو چھوڑ دو جنہیں تمہارے باپ دادا پوجتے رہے ہیں، یا یہ کہ تمہیں اختیار نہیں کہ اپنے مال میں جس طرح کا تصرف کرنا چاہو کرو،؟ بس تم ہی ایک نرم دل اور راست باز آدمی رہ گئے ہو۔
اگر نماز فی الواقع سوچ سمجھ کر اور خشوع و خضوع سے ادا کی جائے تو وہ وہی باتیں سکھلاتی ہے جو شعیب علیہ السلام اور اس کے پیروکاروں کو سمجھ آگئی تھی۔ نماز انسان میں تقویٰ پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اور تقویٰ انسان کو ہر طرح کے اعتقادی، اخلاقی اور معاشرتی برائیوں سے بچاتا ہے۔ جو انسان بیسیوں دفعہ سوچ سمجھ کر اِیَّا کَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پڑھے وہ مشرک کیسے ہو سکتا ہے۔ اور جو انسان بیسیوں دفعہ اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ وہ یقینا بد دیانتیاں ترک کر دے گا اور حلال و حرام کی تمیز اسے ملحوظ رہے گی جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ ﴾ (العنکبوت: ۴۵) فحشا اور منکر کے الفاظ میں اتنی وسعت ہے کہ ہر طرح کی برائیاں ان دونوں لفظوں میں آجاتی ہیں۔ مال میں تصرف کرنا چھوڑ دیں: پہلی بات تو یہ ہے کہ ان معبودوں کو کیسے چھوڑ دیں جن کو ہمارے آباء اجداد پوجتے آئے ہیں اور دوسری بات یہ کہ جب مال ہم اپنی محنت و لیاقت سے کماتے ہیں تو اس کے خرچ کرنے یا نہ کرنے میں ہم پر پابندی کیوں؟ حضرت ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے اس قول کا کہ ’’جو ہم چاہیں کر اپنے مالوں میں کریں‘‘ یہ مطلب ہے کہ ہم زکوٰۃ کیوں دیں؟ اور حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کا یہ کہنا کہ تم بڑے بردبار ہو ازراہ مذاق وحقارت تھا۔ (تفسیر طبری: ۱۵/ ۴۵۱، ح: ۱۸۴۹۳)