قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
(خدا نے) فرمایا اے نوح ! وہ تیرے گھر کے لوگوں میں سے نہیں، وہ تو (سرتاپا) عمل بد ہے (١) پس جس حقیقت کا تجھے علم نہیں اس بارے میں سوال نہ کر۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ناواقفوں میں سے نہ ہوجانا۔
نبوت زادگی اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی: اللہ تعالیٰ نے جواب دیا۔ ہرگز وہ تمھارے اہل میں سے نہیں تھا خواہ وہ تمھارا صُلبی بیٹا ہی تھا۔ اس سوال و جواب سے ایک نہایت اہم سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف ایمان اور عمل صالحہ ہی کی قدر وقیمت ہے۔ اور ایک نبی کا اصل گھرانہ تو وہی ہے جو اس پر ایمان لائے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ اور اگر ایمان نہ لائے تو چاہے وہ کوئی بھی ہو یعنی وہ نبی کا باپ ہو، بیٹا ہو یا بیوی ہو وہ نبی کے گھرانے کا فرد نہیں۔ یہ اللہ نے اس بات کی علت بیان فرما دی کہ جس کے پاس ایمان اور عمل صالح نہیں ہوگا اسے اللہ کے عذاب سے اللہ کا پیغمبر بھی بچانے پر قادر نہیں۔ آج کل لوگ پیروں، فقیروں اور سجادہ نشینوں سے وابستگی کو ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ نبی کو نصیحت: جاہلوں کی سی دراخواست نہ کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی عالم الغیب نہیں ہوتا۔ اس کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے اسے عطا فرما دیتا ہے۔ اگر نوح علیہ السلام کو پہلے سے اس کا علم ہوتا کہ ان کی درخواست قبول نہیں ہوگی تو یقینا وہ اس سے پرہیز کرتے۔