حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ
(یہ سب کچھ ہوتا رہا) یہاں تک کہ جب وہ وقت آگیا کہ ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات ظہور میں آئے اور (فطرت کے) تنور نے جوش مارا تو ہم نے (نوح کو) حکم دیا ہر قسم (کے جانوروں) کے دو دو جوڑے کشتی میں لے لو اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لو۔ مگر اہل و عیال میں وہ لوگ داخل نہیں جن کے لیے پہلے بات کہی جاچکی ہے (یعنی کہا جاچکا ہے کہ انہیں غرق ہونا ہے) نیز ان لوگوں کو بھی لے لو جو ایمان لا چکے ہیں، اور نوح کے ساتھ ایمان نہیں لائے تھے مگر بہت تھوڑے آدمی۔
قوم نوح علیہ السلام پر عذاب الٰہی کا نزول: طوفان نوح کا آغاز تنور سے چشمہ پھوٹنے سے ہوا ایک قول کے مطابق معروف تنور جس میں روٹیاں پکائی جاتی ہیں اور ایک قول کے مطابق تنور سے مراد سطح زمین ہے۔ تنور کے اُبلنے سے بقول ابن عباس رضی اللہ عنہما ’’یہ مطلب ہے کہ روئے زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ (تفسیرطبری) اوپر سے لگا تار بارش شروع ہو گئی پہلا چشمہ پھوٹنے پر نوح علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ سب ایمان والوں کو اس کشتی میں سوار کر و۔ اور جو جانور بھی اس وقت روئے زمین پر موجود ہیں۔ ان کا ایک ایک جوڑا یعنی (نر ومادہ) بھی اس کشتی میں سوار کر لو۔ اپنے گھر والوں میں سے جو مومن ہیں ان سب کو بھی سوار کر لو۔ اور وہ حام، سام، یافث اور ان کے اہل و عیال تھے، اور جو ایمان نہیں لائے جن میں ان کا بیٹا یام جسے کنعان بھی کہا جاتا تھا اور حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی واعلہ جو کافر تھی یہ دونوں بھی طوفان کی نذر ہو گئے۔ ایمان لانے والے بہت تھوڑے لوگ ہی تھے جن کی تعداد اَسّی سے زیادہ نہ تھی۔