وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِّن قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ ۚ قَالَ إِن تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ
چنانچہ نوح کشتی بنانے لگا۔ اور جب کبھی ایسا ہوتا کہ اس کی قوم کا کوئی گروہ اس پر سے گزرتا تو (اسے کشتنی بنانے میں مشغول دیکھ کر) تمسخر کرنے لگا، نوح انہیں جواب دیتا کہ اگر ہماری ہنسی اڑاتے ہو تو (ڑالو) اسی طرح ہم بھی (تمہاری بے وقوفیوں پر ایک دن) ہنسیں گے۔
تورات کے مطابق کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ، چوڑائی پچاس ہاتھ اور اونچائی تیس ہاتھ تھی اور اس کے تین درجے یا منزلیں تھیں اس میں روشن دان، دروازے، کھڑکیاں اور کوٹھریاں تھیں اس کے اندر اور باہر رال لگا دی گئی تھی گویا یہ موجودہ دور کے لحاظ سے بھی ایک درمیانہ درجے کا جہاز تھا ۔ جسے بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار سیدنا نوح علیہ السلام نے بنایا تھا اور اس کے بنانے کا طریقہ خود اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی سکھلا دیا تھا۔ کشتی بنانے پر قوم کا مذاق: روسائے قوم مذاق یہ کرتے تھے کہ جہاز جتنی بڑی کشتی جو تم بنا رہے ہو اسے کیا خشکی پر چلاؤ گے، یہاں نہ تو نزدیک کوئی دریا ہے۔ بارشوں کو ہم ترس رہے ہیں خشک سالی بھی ہے۔ کبھی کہتے نوح! نبی بنتے بنتے بڑھئی بن گئے ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔