سورة البقرة - آیت 144

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) ہم دیکھ رہے ہیں کہ (حکم الٰہی کے شوق و طلب میں) تمہارا چہرہ بار بار آسمان کی طرف اٹھ اتھ جاتا ہے تو یقین کرو ہم عنقریب تمہارا رخ ایک ایسے ہی قبلہ کی طرف پھر دینے والے ہیں جس سے تم خوشنود ہوجاؤگے (اور اب کہ اس معاملہ کے ظہور کا وقت آگیا ہے) تو چاہیے کہ تم اپنا رخ مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف پھیر لو اور جہاں کہیں بھی تم اور تمہارے ساتھی ہوں، ضروری ہے کہ (نماز میں) رخ اسی طرف کو پھر جایا کرے۔ اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے (یعنی یہود اور نصآری) وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ معاملہ ان کے پروردگار کی طرف سے ایک امر حق ہے (کیونکہ ان کے مقدس نوشتوں میں اس کی پیشین گوئی موجود ہے اور جیسے کچھ ان کے اعمال ہیں اللہ ان سے غافل نہیں ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہودیوں کی کتابوں میں مذکور تھا کہ ایک نبی آخرالزماں عرب میں پیدا ہونگے۔ ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ پر ہوں گے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ اسلام اپنی اصل شکل میں واپس آجائے اور آپ قبلہ اول کی طرف منہ کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے آپ بار بار آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کا رخ اسی طرح پھیر دیا ۔ ہجرت کے دوسرے سال ہی اللہ نے تبدیلی قبلہ کا حکم دے دیا۔ لہٰذا ان کا یہ جھگڑا کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں محض حسد و عناد کی بنا پر تھا۔ یعنی اگر آپ ان کی کتابوں سے یہ بات انھیں دکھا بھی دیں تب بھی یہ ماننے والے نہیں ۔حضرت ابراہیم یہودیوں اور عیسائیوں کی راہنمائی کے بانی تھے ۔قبلہ اول تو پہلے ہی سے تھا اب اس کو اُمت کا مرکز بنادیا گیا۔