سورة ھود - آیت 29

وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لوگو یہ جو کچھ میں کر رہا ہوں تو اس پر مال و دولت کا تم سے طالب نہیں، میری خدمت کی مزدوری جو کچھ ہے صرف اللہ پر ہے، اور یہ بھی سمجھ لو کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں (وہ تمہاری نگاہوں میں کتنے ہی ذلیل ہوں گے مگر) میں ایسا کرنے والا نہیں کہ اپنے پاس سے انہیں ہنکا دوں، انہیں بھی اپنے پروردگار سے) ایک دن) ملنا ہے (اور وہ ہم سب کے اعمال کا حساب لینے والا ہے) لیکن (میں تمہیں سمجھاؤں تو کس طرح سمجھاؤں) میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک جماعت ہو (حقیقت سے) جاہل۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

آپ علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ جو دعوت میں تمھیں دے رہا ہوں، جو میں تمھاری خیر خواہی کر رہا ہوں۔ اس کے لیے میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا کہ تمھیں یہ شبہ ہو کہ میں دولت دنیا اکٹھا کرنا چاہتا ہوں، میرا اجر تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے میں تو یہ کام صرف اللہ کے حکم پر اور اس کی رضا کے لیے کر رہا ہوں۔ ایمان لانے والوں کو اپنے ہاں سے نکال دیں: نوح علیہ السلام کی قوم کے سرداروں نے مطالبہ کیا کہ ان کو اپنے ہاں سے دور کر دو۔ جس طرح روسائے مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی قسم کا مطالبہ کیا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ آیات نازل فرمائیں۔ ﴿وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِيِّ﴾ (الانعام: ۵۲) ’’اے پیغمبر ان کو اپنے سے دور نہ کرنا جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ﴾ (الکہف: ۲۸) ’’اپنے نفسوں کو ان لوگوں کے ساتھ جوڑے رکھیے جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں اپنے رب کی رضا چاہتے ہیں۔ آپ کی آنکھیں ان سے گزر کر کسی اور طرف تجاوز نہ کریں۔‘‘ حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ ان غریب، مسکین ایمان والوں کو میں اپنے سے دور ہرگز نہیں کر سکتا۔ یقینا یہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں۔ اللہ ان کے معاملات کو دیکھ لے گا تم جہالت کی باتیں کر رہے ہو۔