سورة ھود - آیت 27

فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس پر قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی کہا ہم تو تم میں اس کے سوا کوئی بات نہیں دیکھتے کہ ہماری ہی طرح کے ایک اادمی ہو اور جو لوگ تمہارے پیچھے چلے ہیں ان میں ان ان لوگوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا جو ہم میں کمینے ہیں اور بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے ہو لیے ہیں۔ ہم تو تم لوگوں میں اپنے سے کوئی برتری نہیں پاتے۔ بلکہ سمجھتے ہیں تم جھوٹے ہو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہ وہ اعتراض ہے جو منکرین حق کی طرف سے تمام انبیاء پر ہوتا رہا ہے۔ جن کے خیال میں نبی یا تو مافوق البشر مخلوق ہونا چاہیے، یا اس کی ساتھ کوئی فرشتہ رہنا چاہیے یا مال و دولت شان و شوکت کے لحاظ سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ حق کی تاریخ میں یہ بات بھی ہر دور میں سامنے آتی رہی ہے کہ ابتدا میں اس کو اپنانے والے ہمیشہ وہ لوگ ہوتے جنھیں معاشرے میں کمزور اور کم تر سمجھا جاتا تھا اور صاحب حیثیت اور خوشحال طبقہ اس سے محروم رہتا۔ حتیٰ کہ یہ چیز پیغمبروں پیروکاروں کی علامت بن گئی۔ صحیح البخاری کی روایت میں ہے کہ جب شام روم ہر قل نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں پوچھیں تو ان میں ایک بات یہ بھی پوچھی کہ: ’’اس کے پیروکار معاشرے کے معزز سمجھے جانے والے لوگ ہیں یا کمزور لوگ؟ تو حضرت سفیان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ’’کمزور لوگ‘‘ جس پر ہرقل نے کہا: ’’رسولوں کے پیروکار یہی لوگ ہوتے ہیں‘‘ (بخاری نمبر۷، مسلم: ۱۷۷۳) قرآن کریم میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ خوشحال طبقہ ہی سب سے پہلے پیغمبروں کی تکذیب کرتا رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَالَ مُتْرَفُوْهَا اِنَّا وَجَدْنَا اٰبَآءَنَا عَلٰى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰى اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ﴾ (الزخرف: ۲۳) ’’آسودہ حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو (ایک راہ پر اور) ایک دین پر پایا ہے۔ اور ہم تو انھی کے نقش پاکی پیروی کرنے والے ہیں۔‘‘ اہل کفر اہل ایمان کی دنیوی حیثیت کے اعتبار سے اُنھیں حقیر اور کم تر سمجھتے تھے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ حق کے پیروکار ہی معزز و اشراف ہیں۔ حق کا انکار کرنے والے بے حیثیت اور حقیر ہیں چاہے دنیوی اعتبار سے وہ مالدار ہی ہوں۔