أُولَٰئِكَ لَمْ يَكُونُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ۘ يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ ۚ مَا كَانُوا يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوا يُبْصِرُونَ
یہ لوگ نہ تو زمین میں ( اللہ کو) عاجز کردینے والے تھے نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی کارساز تھا، انہیں دوگنا عذاب ہوگا (کیونکہ ان کی سرکشی اور ہٹ دھرمی ایسی تھی کہ) نہ تو حق بات سن سکتے تھے نہ (حقیقت کی روشنی پر) نظر تھی۔
یعنی ان کا حق سے اعراض اور بغض اس انتہا کو پہنچاہوا تھا کہ یہ اسے سننے اور دیکھنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے تھے۔ اللہ نے انھیں کان اور آنکھیں تو دی تھیں لیکن انھوں نے ان سے حق کی بات نہ سنی نہ دیکھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَا اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَ لَا اَبْصَارُهُمْ وَ لَا اَفْـِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ﴾ (الاحقاف: ۲۶) ’’نہ ان کے کانوں سے انھیں کوئی فائدہ پہنچایا، نہ آنکھوں اور دلوں نے‘‘ کیونکہ وہ حق سننے سے بہرے اور حق دیکھنے سے اندھے بنے رہے۔ جہنم میں جاتے وقت خود ہی کہیں گے: ﴿لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ﴾ (الملک: ۱۰) ’’اگر سنتے ہوتے، عقل رکھتے ہوتے تو آج دوخی نہ بنتے۔‘‘ دوگناہ عذاب اس لیے دیا جائے گاکہ ایک تو خود سیدھی راہ دیکھنے کی کوشش نہ کرتے اور اگر انھیں کوئی سیدھی راہ بتلانے کی کوشش کرتا تو اس کی بات سننا بھی انھیں گوارا نہ تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يُفْسِدُوْنَ﴾ (النحل: ۸۸) ’’کافروں کے لیے اور اللہ کی راہ م سے روکنے والوں کے لیے عذاب پر عذاب بڑھتا چلا جائے گا۔ ہر ایک حکم عدولی پر ہر ایک برائی پر، سزا بھگتیں گے۔‘‘