أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
پھر دیکھو جو لوگ اپنے پروردگار کی جانب سے ایک روشن دلیل رکھتے ہوں (یعنی وجدان و عقل کا فیصلہ) اور اس کے ساتھ ہی ایک گواہ بھی اس کی طرف سے آگیا ہو ( یعنی اللہ کی وحی) اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی پیشوائی کرتی ہوئی اور سر تا پارحمت آچکی ہو ( اور تصدیق کر رہی ہو تو کیا ایسے لوگ انکار کرسکتے ہیں؟ نہیں) یہ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور (ملک کے مختلف) گروہوں میں سے جو کوئی اس سے منکر ہوا تو یقین کرو (دوزخ کی) آگ ہی وہ ٹھکانا ہے جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ پس (اے پیغمبر) تو اس کی نسبت کسی طرح کے شک میں نہ پڑیو ( یعنی دعوت قرآن کی کامیابی کے بارے میں کسی طرح کا شک نہ کیجیو) وہ تیرے پروردگار کی جانب سے امر حق ہے۔ لیکن (ایسا ہی ہوتا ہے) کہ اکثر آدمی (سچائی پر) ایمان نہیں لاتے۔
مومن کون ہیں: جو فطرت پر قائم ہیں جو اللہ کی وحدانیت کو دل سے مانتے ہیں۔ اللہ کی فطرت، جس پر اس نے انسانی فطرت پیدا کی۔ بخاری و مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے جانوروں کے بچے صحیح سالم پیدا ہوتے ہیں پھر لوگ ان کے کان کاٹ ڈالتے ہیں۔‘‘ (بخاری: ۱۳۸۵، مسلم: ۲۶۵۸) پس مومن ایک تو اللہ کی فطرت پر ہی رہتا ہے۔ یعنی جس کو خوداپنے وجود میں، زمین و آسمان کی ساخت اور کائنات کے نظم و نسق میں کھلی شہادت مل رہی تھی کہ اس کا دنیا کا مالک، حکم، پروردگار اور فرماں روا صرف ایک خدا ہے۔ پھر اس کے پاس اللہ کا شاہد یعنی اللہ کی شریعت تورات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پہنچتی ہے اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ یعنی قرآن، جس نے آکر اُس فطری و عقلی شہادت کی تائید کی ان دو قومی شہادتوں یعنی تورات اور قرآن کریم، تورات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدتوں پہلے نازل ہوئی تھی اور قرآن نے اس کی تائید کی، پھر آخر کون ان سے آنکھیں بند کرسکتا ہے۔ اور کون سی چیز ایمان لانے میں آڑے آسکتی ہے۔ ان شہادتوں کی بنا پر تو انسان کو فوراً ایمان لے آنا چاہیے۔ اور جو پھر بھی ایمان نہیں لاتا تو اس کا علاج دوزخ کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قرآن کے اللہ کی طرف سے سراسر حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ﴾ (البقرۃ: ۲) اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ مَا اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ﴾ (یوسف: ۱۰۳) گو آپ چاہیں لیکن اکثر لوگ تو وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گے اور یہ بھی فرمایا: ﴿وَ لَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ان پر ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا، اور سوائے مومنوں کی ایک مختصر جماعت کے باقی سب اسی کے پیچھے لگ گئے۔