مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ
جو کوئی (صرف) دنیا کی زندگی اور اس کی دلفریبیاں ہی چاہتا ہے تو (ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون یہ ہے کہ) اس کی کوشش و عمل کے تنائج یہاں پورے پورے دے دیتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ دنیا میں اس کے ساتھ کمی کی جائے۔
ان دو آیات کے بارے میں بعض علماء کا خیال ہے کہ اس میں اہل ریا کا ذکر ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں اور بعض کے نزدیک اس میں دنیا طلب کرنے والوں کا ذکر ہے۔ کیونکہ دنیا دار بھی جو اچھے عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی جزا انھیں دنیا میں دے دیتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پس جو شخص دنیا میں دکھاوے کے لیے نماز پڑھے، روزے رکھے یا تہجد گزاری کرے اس کا اجر اسے دنیا میں ہی مل کر رہتا ہے۔ آخرت میں وہ خالی ہاتھ اور محض بے عمل اُٹھتا ہے۔ (تفسیر طبری: ۱۵/ ۲۶۴، ح: ۱۸۰۱۶) الغرض جس کا جو ارادہ ہو اسی کے مطابق اس سے معاملہ ہوتا ہے دنیا طلبی کے لیے جو اعمال ہوں گے وہ آخرت میں کار آمد نہیں ہو سکتے۔ ارادہ کے لحاظ سے ایک مثال یہ ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دینار و درہم اور ریشمی چادر اور اونی کپڑوں کا بندہ بلاک ہو گیا کہ اگر اسے یہ چیزیں ملیں تو خوش ہو جاتا ہے اور اگر نہیں ملتیں تو ناراض ہو جاتا ہے۔(بخاری: ۶۴۳۵) کفار مکہ یہ حجت پیش کیا کرتے تھے کہ ہم مسافروں کو کھانا کھلاتے ہیں، یتیموں کی پرورش کرتے ہیں بھوکوں کی خبر گیری کرتے ہیں راستوں پر کنوئیں کھدواتے ہیں۔ سایہ دار درخت لگواتے ہیں او ربھی بہت سے نیک کام کرتے ہیں۔ ایسے ہی کاموں کی وجہ سے ہم دنیا میں پھلتے پھولتے ہیں تو ہمیں یہی بات کافی ہے قرآن کے اتباع کی ضرورت بھی کیا رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کی حجت کا جواب دیا ہے کہ دنیامیں فی الواقع انھیں نیک کاموں کا اچھا بدلہ ملے گا رہا آخرت کا معاملہ تو آخرت پر ان کا اعتقاد ہی نہیں ہے اور نہ ہی آخرت میں یہ بدلہ لینے کی غرض سے کام کرتے ہیں۔ لہٰذا آخرت کے منکرین کو عذاب جہنم ہی ملے گا۔