فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
پھر (اے پیغمبر) کیا تو ایسا کرے گا کہ جو کچھ تجھ پر وحی کیا جاتا ہے اس میں سے کچھ باتیں چھوڑ دے گا اور اس کی وجہ سے دل تنگ رہے گا؟ اور یہ اس لیے کہ لوگ کہہ اٹھیں گے اس آدمی پر کوئی خزانہ (آسمان سے) کیوں نہیں اتر آیا؟ یا ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ آکر کھڑا ہوجاتا؟ (نہیں تجھے تو دل تنگ نہیں ہونا چاہیے) تیرا مقام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کرنے والا ہے (تجھ پر اس کی ذمہ داری نہیں کہ لوگ تیری باتیں مان بھی لیں) اور ہر چیز پر اللہ ہی نگہبان ہے۔
کافروں کی تنقید کی پرواہ نہ کریں مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کہتے رہتے تھے کہ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل ہوتا۔ یا اس کی طرف کوئی خزانہ کیوں نہیں اتار دیا جاتا۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ﴾ (الحجر: ۹۷) ہمیں معلوم ہے کہ ’’یہ لوگ آپ کی بابت جو باتیں کہتے ہیں ان سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آپ ملول و دل آزردہ نہ ہوں اپنے کام سے نہ رُکیے انھیں حق کی پکار سنانے میں کوتاہی نہ کیجیے، دن رات اللہ کی طرف بلاتے رہیے ہمیں معلوم ہے کہ ان کی دکھ دینے والی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بری لگتی ہیں شاید آپ کا سینہ تنگ ہو اور کچھ باتیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہیں اور وہ مشرکین پر گراں گزرتی ہیں، ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ انھیں سنانا پسند نہ کریں۔ آپ کا کام صرف انذار و تبلیغ ہے وہ آپ ہر صورت کیے جائیں۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ ان سے نمٹ لے گا۔