سورة ھود - آیت 7

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور وہی ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا اور اس کے تخت (حکومت) کی فرماں روائی پانی پر تھی، اور اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائش میں ڈالے اور یہ بات ظاہر ہوجائے کہ کون عمل میں بہتر ہے، اور (اے پیغمبر) اگر تو ان لوگوں سے کہے تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو جو لوگ منکر ہیں وہ ضرور بول اٹھیں یہ تو صریح جادو کی سی باتیں ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

تخلیق کائنات کا تذکرہ: حضرت عمران بن حصینؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اس کا عرش پانی پر تھا پھر اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور لوح محفوظ میں ہر چیز لکھی۔‘‘ (بخاری: ۳۱۹۱) دنیا دار الامتحان ہے۔ اس آیت سے کئی حقائق سامنے آتے ہیں مثلاً زمین اور آسمان اور کائنات کی دوسری اشیا کی تخلیق کا مقصد تخلیق آدم ہے۔ اور یہ زمین، یہ سورج، یہ چاند، یہ ہوائیں یہ فضائیں اس لیے پیدا کی گئیں کہ ان کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتاتھا۔ تخلیق آدم کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا اس دنیا میں امتحان لیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (المومنون: ۱۱۵) ’’کیا تم یہ گمان کیے ہوئے ہو کہ ہم نے تمھیں یونہی بیکار پیدا کیا ہے۔ اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان اور جنوں کو میں نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ وہ تمھیں آزما رہا ہے کہ تم میں اچھے عمل والے کون ہیں۔ یعنی وہ عمل جن میں خلوص نیت ہو۔ اور شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری ہو ان دونوں باتوں میں سے اگر ایک بھی نہ ہ تو وہ عمل غارت اور بے کار ہے۔ پھر اللہ فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کہیے کہ تم مرنے کے بعد زندہ کیے جاؤ گے جس اللہ نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی پیدا کرے گا تو فوراً کہیں گے کہ ہم نہیں مانتے حالانکہ قائل بھی ہیں کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَ هُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ﴾ (الروم: ۲۷) ’’اسی نے پہلی پیدایش شروع کی وہی دوبارہ پیدایش کرے گا اور یہ تو اس پر نہایت ہی آسان ہے۔‘‘ لیکن کافر جو یوم آخرت کے منکر ہیں جب وہ ایسے دلائل سنتے ہیں تو فوراً پکار اُٹھے ہیں کہ یہ بیان تو کھلا جادو ہے۔ جس نے بہت سے لوگوں کو مرعوب و مسحور کر لیا ہے مگر ہم پر یہ جادو کارگرنہ ہوگا۔